ہم تُم کو روتے ہی نہ رہتے اے مرنے والو : In memory of Aslam Azhar

I share my Op Ed on late Aslam Azhar published at Urdu Times in its various North American and European cities.

It is in Urdu and I have penned it as a duty of a writer to share about a great Pakistani who has undoubtedly indebted the nation with his contributions as well as sacrifices in upholding values, culture, justice, and rights, as well as enriching Pakistan through his work in establishing Television there.

Those who may not read Urdu may read some articles on him by googling.

—————————————————————————

ہم تُم کو روتے ہی نہ رہتے اے مرنے والو

پر دیس میں رہنے والوں تک کبھی ایک ایسی خبر پہنچتی ہے کہ وہ اچانک سکتہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں، یا اُن کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو پھوٹ پڑتے ہیں۔ اس لمحہ ایک ایسا احساسِ بے بسی ہوتا ہے کہ انسان بے چارگی کے عالم میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے ، کس ہم درد کس ہم نَفَس کو تلاش کرے اور ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈال کر آہ و زاریاں کرے۔ گزشتہ ہفتہ ہم پر ایسا ہی عالم گزرا جب ہم تک پاکستان کی معروف پبلشر، اور انسانی حقوق کی تحریک کی اہم شخصیت، محترمہ حوری نورانیؔ کا فیس بُکدوسرے دن پھر جمع ہوجات کا ایک پیغام پہنچا جس میں پاکستان میں ٹیلی ویژن قائم کرنے والے اور ابلاغِ عامہ کے نظام میں انقلاب برپا کرنے والے ’اسلم اظہرؔ ‘ کے انتقال کی خبر تھی۔ ہم اسلم اظہر سے کبھی ملے بھی نہیں تھے نہ ہی اُن سے ہمارا کوئی ذاتی تعلق تھا۔ ہاں ہم اُن کا نام اپنے لڑکپن سے جانتے تھے، جب پاکستان میں ٹیلی ویژن کی تجرباتی نشریات شروع ہوئی تھیں۔ ملک بھر میں مختلف عوامی مقامات پر کھمبوں پر بلیک اینڈ وہائٹ ٹیلی ویژن نسب کیئے جاتے تھے، اور شام کو ایک معینہ مدت کے لیئے ان پر پروگرا م نشر ہوتے تھے۔ ان کے ارد گرد عوام جمع ہو جاتے تھے، اور دو تین گھنٹے تک سحر کے عالم میں ٹکٹکی باندھے ٹیلی ویژن دیکھتے اور ے تھے۔

اس ہی دوران یہ معلوم ہونا شروع ہوا کہ ان تجرباتی نشریات کے ذمہ دار اسلم اظہر نامی ایک  صاحب ہیں جو پاکستان کے معروف سرکاری افسر ’اللہ دتا اظہر (اے، ڈی، اظہر) کے صاحبزادے ہیں۔ جس زمانہ میں پاکستان میں ٹیلی ویژن کاتجربہ کیا جارہا تھا اس وقت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں ایسی کوئی بڑی کوشش شروع نہیں ہوئی تھی۔ ان تجربات کے فوراً بعد پاکستان میں ٹیلی ویژن نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی، اور ہمارے سامنے پاکستان میں ادب ، ثقافت، سماجی معاملات، علوم و فنون،صحافت اور صنعت و حرفت کے معروف نام آئے جو اب زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ اُسی زمانہ سے پاکستانی ٹیلی ویژن ڈراموں کا ایک بلند معیار قائم ہوا جو سارے برِ صغیر کے لیئے ایک مثال بن گیا۔ یہاں تک کہ یہ ہندوستان میں بھی ذوق و شوق سے دیکھے جانے لگے۔ اب ہم جو پاکستان میں بے تحاشا کیبل ٹیلی ویژن اور نئے نئے چینلوں کے عادی ہیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے پیچھے ایک ایسے شخص کا کردار تھا جو ادب و ثقافت کی خاطر ایک بڑی مراعات یافتہ ملازمت چھوڑ کر آیا تھا۔ Continue reading