Saudi Arab, Canada, and Thousand Lashes

My Urdu Op Ed published at Nia Zamana , Urdu Times, and Pakistan Times Canada.

It discusses the sudden dispute between Canada and despotic monarchy Saudi Arabia, because of Canada’s public expression of support of recently arrested women activists, including Samar Badawi, sister of imprisoned Saudi activist Raif Badawi.

Raif was arrested in 2012 on the accusation of blasphemy when he criticised several Saudi religious personalities.

He was convicted and awarded 10 years of jail and one thousand lashes. His wife Insaf Haider was also hounded and took refuge in Canada.

Canada’s attitude in this matters has been paradoxical: as at one hand it appears to support the Saudi activists, and on the other hand it defend its sales of armored carriers that are used against the activists as well as the citizens of Yemen.

Recent spat broke out when the Canadian foreign minister tweeted demanding release of Samar Badawi and other activists.

It has so infuriated the Saudi Crown Prince Mohammed ben Salman, that he expelled Canadian ambassador, ordered about 8,000 Saudi students to leave Canada, stopped Saudi Airline flights to Canada, and asked 800 Saudi doctors and residents in training to also leave Canada. Other harsh actions are expected.

Canada has said that it will stand firm for its values of supporting freedoms and free expression.

I suggest that it is an act of fine balance and hope that Canada succeeds in its support for values of freedom, and renounces it hypocrisy and duplicity of selling arms to despots who oppose the values of freedom.

Urdu article is appended here and can also be read at:

کینیڈا ۔ سعودی عرب ۔ ہزار کوڑوں کا جھگڑا


————————–

کینیڈا ؔ۔ سعودی عرب ؔ۔ ہزار کوڑوں کا جھگڑا

 کینیڈا  دنیا بھر میں ایک امن پسند ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس کا عموماً کسی اور ملک سے کوئی جھگڑا یا قضیہ نہیں ہوتا۔ ہاں ستم ظریفانہ  طور پر چند ایک استثنا کے ساتھ،  یہ ہمیشہ امریکہ کے جھگڑوں میں یا برطانیہ کے خارجہ امور کے قضیوں میں ان کا اتحادی بن کر جنگوں کا بوجھ اٹھاتا رہتا ہے۔ برطانیہ کے ساتھ تو اس کا سمبندھ سمجھ میں آتا ہے کہ کینیڈا اب بھی تاجِ برطانیہ کا اطاعت بردار ہے۔ خواہ یہ اطاعت صرف رسمی ہی کیوں نہ ہو۔ ہا ں یہ اطاعت اس حد تک تو ضرور رسمی ہے کہ کینیڈا کے ہر شہری کو برطانیہ کے تاجپوش کی اور اس کے وارثوں کی اطاعت کا حلف اٹھانا ہوتا ہے۔ یہاں کا وفاقی گورنر جنرل اور صوبائی نائب گورنر جنرل ، تاجِ برطانیہ کے نمائندے ہوتے ہیں۔

تاجِ برطانیہ کے وفادار ہونے کے ناطے کینیڈا، ان سب جنگوں میں شریک ہوتا رہا ہے جن میں تاجِ برطانیہ شامل ہو۔ اس میں عالمی جنگیں بھی شامل ہیں اور دیگر علاقائی جنگیں بھی۔ اس کے ساتھ امریکہ کا پڑوسی ملک ہونے کی بنا پر، اور نیٹو کا رکن ہونے کی وجہہ سے کینیڈا ،امریکہ کی بھی تقریباً ہر جنگ میں کوئی نہ کوئی حلیفانہ کردار ادا کرتا رہا ہے۔ کئی بار تو ان قضیوں میں امریکہ کا حلیف ہونے کی وجہہ سے اسے ایسی کاروایئوں میں بھی شریک ہوناپڑا ہے جو بین الاقوامی طور پر غیر قانونی سمجھی گئی ہیں۔ اور خود کینیڈا کی سپریم کورٹ نے اسے ان معاملات  پر لتاڑا بھی ہے۔ اور کینیڈا کو اپنے ان شہریوں کو معاوضے بھی ادا کرنا پڑے ہیں جنہیں بعض  بین الاقوامی غیر قانونی کاروایئوں کی وجہہ سے ذہنی یا جسمانی اذیت پہنچی۔ یہ بدقسمتی سے کینیڈا  کے معاملات کا ایک سیاہ رخ ہے ، جس پر اسے انسانی حقوق کے عمل پرستوں کی شکایتیں سہنا پڑتی ہیں۔

دوسری طرف انسانی حقوق کے معاملات میں بعض کمزوریوں کے باوجود ، کینیڈا دنیا بھر میں ان ممالک کی صفِ اول میں گنا جاتا ہے، جوان انسانوں کی مدد اور دست گیری میں پیش پیش ہیں جو ضمیر کی بنیاد پر اپنے ملکوں میں  جبر و تشدد سہتے ہیں یا در بدر ہو کر تارکِ وطن ہوجاتے ہیں۔ کینیڈا، ان معاملات میں نہ صرف آگے بڑھ کر مدد کرتا ہے بلکہ اپنی سرحدوں کو ایسےافتادگان کے لیئے کھول کر انہیں خوش آمدید بھی کہتا ہے اور ان کی ہر ممکن مدد کی کوشش کرتا ہے۔

یہی وہ رویہ ہے جس کے نتیجہ میں کینیڈاکو حیران کن طور پر، دنیا کی جابر ترین شہنشاہیت یعنی سعودی عرب کی سخت ترین مخالفت کا دھچکا پہنچا۔ گزشتہ دنوں سعودی عرب نے, جس سے کینیڈا کے تعلقات ہمیشہ  دوستانہ دکھائے دیتے تھے، اچانک سعودی عرب سے کینیڈا کے سفیر کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا اور خود اپنے سفیر کو بھی کینیڈا سے واپس بلا لیا، اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے کینیڈا پر تجارتی پابندیاں عائد کر دیں ، اور اپنے ہزاروں طالب علموں کو کینیڈا سے واپس بلانے کا حکم دے دیا۔

یہ سب سعودی عرب کے نہایت سخت گیر  نوجوان ولی عہد شہزادے محمد ؔبن سلمان  کے حکم پر ہوا ۔ شہزادہ محمد بن سلمان گزشتہ دنوں امریکی صدر ٹرمپ ؔ کی طرح اچنبھا خیز حرکتیں کرتے خبروں کی شہ سرخی بنت رہے ہیں۔وہ ایک طرف تو اپنے ملک کو آزاد خیال بنانے کے دعوے کر رہے ہیں، دوسری جانب خود اپنے شہریوں کے خلاف جابرانہ کاروایئاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کینیڈا کے خلاف سعودی عرب کی کاروائی انتہائی تعجب خیز اور اچانک تھی۔ کینیڈا کے سعودی عرب سے تعلقات عام طور پر دوستانہ رہے ہیں جن میں کبھی تلخی کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود کہ کینیڈا سعودی عرب میں مقید ایک سعودی شہری ، رعیف بدوی ؔ کے انسانی حقوق کے مقدمہ میں اس کی اسی طرح سے حمایت کرتا رہا تھا جیسی کے وہ اس قسم کے دیگر معاملات میں کرتا ہے۔

رعیف بدویؔ کو  سنہ    2012      میں توہینِ مذہب کے اسی طرح کے الزامات میں گرفتار کیا گیا جیسا کے پاکستان میں روز ہی ہوتا ہے۔  ان پر الزام  تھا کہ انہوں نے الکٹرونک  میڈیا  یعنی فیس بُک اور ٹوئٹر کے ذریعہ سعودی عرب کی اہم مذہبی  شخصیات کی توہین کی, اور ان کے فتووں پر سوال اٹھا کر وہ  مذہب کی بھی توہین کرنے  کے بھی مجرم ہیں، اس الزام میں انہیں  دس سال قید اور ایک ہزار کوڑوں کی سزا بھی سنائی گئی۔ یہ سزا اتنی شدید تھی کہ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے اداروں نے اس ضمن  میں آواز اٹھائی ۔ کینیڈا نے بھی اس میں اپنی آواز ملائی اور سفارتی بنیادوںپر سعودی عرب سے نرمی کی درخواست کی۔ کینیڈا اکثر ایسے معاملا ت میں اپنی سفارتی کوششیں کرتا ہے۔ کیونکہ اکثر جابر حکمراں اچھی عالمی شہرت رکھنے والے ممالک کا سفارتی دبائو طوعاً و کرہاً قبول کر کے اپنا رویہ کچھ نرم کر دیتے ہیں۔

سعودی حکمرانوں نے نہ صرف رعیف بدوی  پر ظلم کیئے، بلکہ اس کی بیوی انصافؔ حیدر پر بھی سختیا ں شروع کیں۔ اور اس حد تک  زچ کیا  کہ،  انصاف حیدر کے ماں باپ نے اس پر،رعیف بدوی سے طلاق لینے کے لیئے دبائو ڈالا کیوں کہ   وہ ان کے نزدیک و مرتد ہو گیا تھا۔ انصاف حیدر کو اپنی بچیوں کے ساتھ ملک سے فرار ہونا پڑا اور کینیڈا نے اسے پناہ فراہم کی۔  وہ گزشتہ پانچ سال سے یہاں مقیم ہے اور کینیڈا کی حمایت سے اپنے خاوند رعیف بدوی کے حق میں کوششیں کر رہی ہے۔

گزشتہ ہفتہ سعودی عرب نے رعیف بدوی کی بہن ثمر ؔبدوی اور دیگر خوتین عمل پرستوں کو گرفتار کیا جو وہاں خواتین کے انسانی حقوق کے بارے میں مطالبات کر رہی تھیں۔ اس پر کینیڈا کی وزارتِ خارجہ نے ان خواتین کے حق میں ایک مختصر بیان جاری کیا جس میں مطالبہ کیا تھا کہ ان خواتین کو رہا کیا جائے اور ان  سے نرمی کی جائے۔

اس مطالبہ نے سعودی حکومت اور بالخصوص  ولی عہد محمد بن سلمان ؔ کو سخت برہم کردیا۔ جس کے بعد تابڑتوڑ انتہائی حیران کن اقدامات کی خبریں آنے لگیں۔ پہلے کینیڈ ا کے سفیر کو نکالا گیا، پھر سعودی عرب کے ہزاروں طالب علموں اور مشیروں کو کینیڈا سے منتقل کرنے کا حکم دیا گیا، اب یہ امریکہ یا برطانیہ بھیجے جایئں گے۔ اس کے فوراً بعد کینیڈا سے سعودی عرب کی پروازوں پر پابندی لگا دی گئی۔ اور بھی اقدامات کا امکان ہے۔

یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے تمام معاملات کی حمایت کے باوجود کینیڈا نے گزشتہ سالوں میں اپنے عمل پرستوں کے تمام مطالبات کے باوجود سعودی عرب کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا ہے۔ بالخصوص وہ بکتر بند گاڑیاں جو سعودی عمل پرستوں اور یمن کے مظلوم شہریوں کے خلاف جابرانہ طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ کینیڈا کی وہی حکومت جو اس وقت انسانی حقوق کی آواز اٹھارہی ہے، سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت کا دفاع بھی کرتی رہی ہے۔

سعودی اقدامات کے بعد ایک بار پھر کینیڈا کی وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ کینیڈا کسی خسارے کے خطرے کے باوجود انسانی حقوق کے حق میں آواز اٹھاتا رہے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کینیڈا اپنے فوجی اور تجارتی مفادات اور انسانی حقوق کے بارے میں اپنی اقدار کے درمیان مشکل توازن کیسے قائم رکھتا ہے۔ ہم تو یہی چاہیں گے کہ انسانی حقوق کا پلڑا بھاری ہو لیکن اس کے لیئے منافقانہ مفادات سے جان چھڑانی ہوتی ہے۔ کاش ایسا ہو سکے!

 

 

 

 

 

 

Leave a Reply