ایک آدمی احمد شاہ نامی : از محمد خالد اختر

An article on Pakistan’s distinguished short story writer and poet, Ahmad Nadeem Qasmi by another distinguished writer, Mohammed Khalid Akhtar.

Originally published Samt Onlile Urdu Journal , Issue # 5, October – December 2006.

ایک آدمی احمد شاہ نامی
محمد خالد اختر
احمد ندیم قاسمی کے بارے میں میں کیا جانتا ہوں؟ ایک انسان دوسرے انسان کے متعلق کیا کچھ جان سکتا ہے؟ ایک آدمی کا بہت تھوڑا روپ اس کے جاننے والوں، دوستوں اور عزیزوں کے مشاہدے کے لیے سامنے آتا ہے۔۔۔ صرف وہی حصہ جو خود ہمارے اندرونی وجود کے آئینے میں منعکس ہوتا ہے اور اسے زندگی کی شاہراہ پر ہمارے قریب لاتا ہے۔ باقی بہت بڑا حصہ۔۔۔ گراہم گرین کے الفاظ میں ’اندر کا آدمی‘۔۔۔ اکثر ہم میں سے بیشتر کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ ایک بڑا ناول نگار دوستووسکی، طالسطائی یا ہمارا کہانی نویس منٹو شاید اس حصے کو اپنی عکسی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے، ہر کوئی نہیں۔ یہ کون جانے ایک انسانی دل کے اندر کون سی امنگیں، محرومیاں، خواہشیں پرورش پاتی ہیں؛ کون سے بھسم کرنے والے، ابتدائی جبلی جذبات و احساسات وہاں بستے ہیں۔ ہم سب یک رنگ نہیں اور مختلف حالات اور موقعوں پر ہمارے کردار و افعال مختلف ہوتے ہیں۔ وہ چہرہ جو ایک عوامی لیڈر ہزاروں اور لاکھوں کے بے رخ مجمعوں کے روبرو پیش کرتا ہے، وہ چہرہ نہیں جو اس کے جگری یار اور لنگوٹیے ذاتی مجلس میں دیکھتے ہیں، یا جسے اس کے گھر میں اس کی بیوی اور بچے جانتے ہیں۔
اس کی گھریلو زندگی کا مجھے علم نہیں، مگر مجھے یقین ہے کہ وہ ایک محبت کرنے والا، متحمل مزاج شوہر ہے اور اس نے کبھی غضب ناک ہو کر گھر کے برتن نہیں توڑے۔ گو وہ ایک کہنہ اور بلا کا سگریٹ نوش ہے، اس نے کبھی شراب نہیں چکھی اور بیئر یا وہسکی کا ذائقہ اس کے ہونٹوں کے لیے ناآشنا ہے۔ کتنی بڑی محرومی! لیکن ندیم اسے قطعاً محرومی نہیں جانتا اور شراب نوشی کو ’سات فقہی گناہوں‘ میں سے ایک گردانتا ہے۔ اپنے ایامِ شباب میں محکمۂ ایکسائز کی دو سال کی ملازمت بھی اسے اس لااُبالی، معصیانہ راہ پر نہ لا سکی۔ ہم اس اخلاقی ضبط کے لیے اس کا احترام کر سکتے ہیں یا خود مبتدی متوالے ہونے کی وجہ سے اس پر رحم کھا سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے ایک درویشانہ اور دیندارانہ ماحول میں آنکھیں کھولیں اور پرورش پائی اور اس کے بچپن کے اخلاقی ٹیبو اس کے خون میں رچ بس گئے ہیں۔ اس نے ان ٹیبوؤں اور تحریموں سے چھٹکارا پانے کے جتن بھی نہیںکیے، کیونکہ وہ اس کے لیے کڑے اخلاقی قوانین ہیں جن سے انحراف مذلت اور خواری ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان اخلاقی تحریموں نے اس کی شخصیت کو کسی قدر گھونٹ کے رکھ دیا ہے۔ اس کی گفتگو پُرلطف، دل پذیر اور شگفتہ ہوتی ہے، مگر اس کے ہمراہ گفتگو کے راستے پر کچھ دیر چل کر تم ایک ایسے مکان پر آ نکلتے ہو جس کا آہنی دروازہ اور دریچے بند ہیں اور جس میں سوائے اس کے کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔ اس بے ہوا اور اُجاڑ مکان میں وہ اکیلا رہتا ہے، اپنے غالب اخلاقی آسیبوں، پچھتاووں، نامرادیوں اور پشیمانیوں کے ساتھ! ندیم کے دو تین قریبی دوست ہیں، جن میں میں فخر سے خود کو بھی شمار کرتا ہوں، مگر میرا خیال ہے اس کا کوئی ایسا ہمراز نہیں جس کے سامنے اس کی اندرونی زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب ہو۔ اپنی تنومند، الھڑ جوانی میں اس نے ضرور کسی سرمگیں آنکھوں والی دیہاتی ’روحی‘ سے تپتی محبت کی ہوگی، مگر اس کے دوست اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور وہ اس کا ذکر تک نہیں کرتا۔ یہ کہی نہ جانے والی بات ہے، قدرے شرمناک، ’ہش ہش‘، مخربِ اخلاق قسم کی چیز! اگر ندیم نے کبھی اپنی آپ بیتی لکھی تو بلاشبہ وہ ایک بے حد دلچسپ صحیفہ ہوگی۔۔۔ اس عہد کی ادبی اور تاریخی شخصیات کے متعلق چمکتی دمکتی یادداشتوں سے بھری۔ ہاں اس میں ندیم کس حد تک موجود ہوگا، میں نہیں کہہ سکتا۔
ہاں، میں احمد ندیم قاسمی کے متعلق کیا جانتا ہوں؟ شاید بہت کم۔ شاید اتنا جتنا ایک دوست کو جاننے کا حق ہے۔ ہر انسان اپنی ذات میں ایک جزیرہ ہے اور محبت ہی دو انسانوں کو ایک دوسرے سے ملانے کا واحد پل ہے۔ میں احمد ندیم قاسمی سے اس وقت سے محبت کرتا ہوں جب قسمتوں نے ہمیں پینتیس چھتیس برس پہلے صادق ایجرٹن کالج بہاولپور کے ایوانوں میں اکٹھا لا پھینکا۔ میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا، وہ تھرڈایئر کا۔ مگر خوش قسمتی سے ہم ایک ہی پروفیسر کے گروپ موسوم بہ ’سولجرز‘ میں شامل تھے۔ ’سولجرز‘ کے اجلاس ہر ہفتے ہمارے پروفیسر کی صدارت میں ہوتے تھے۔ ہائی اسکول ہی سے مجھے رائیڈر ہیگرڈ، فینی مور کو پر اور رابرٹ لوئی اسٹیونسن کے مہماتی ناول پڑھنے کی لت پڑ گئی تھی اور میں ان کے طرز میں انگریزی میں جنگلی آدمیوں اور بحری قزاقوں کی کہانیاں لکھتا رہتا تھا۔ میں اپنے ذہن کی ایک عجیب خیالی دنیا میں گم صم رہتا تھا، مکمل طور پر مگن! ان میں سے چند کہانیاں میں نے ’سولجرز‘ میں پڑھیں، جن پر مجھے کافی داد ملی۔۔۔اگرچہ گروپ کے چند لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے ان کو کہاں سے نقل کیا ہے۔ ندیم، جو اس وقت احمد شاہ ندیم تھا، ’سولجرز‘ کے اجلاسوں میں اپنی نئی نئی نظمیں سنایا کرتا۔ ان نظموں میں ایک نئی نغمگی، تازگی اور اُجلاپن ہوتا تھا اور ہم ان کے جادو تلے آ گئے تھے۔ یہ گٹھے جثّے کا، فراخ رو دیہاتی نوجوان ایک فطری شاعر تھا اور اس وقت بھی ہم اس سے مستقبل میں بڑی چیزوں کی توقع رکھتے تھے اور ہمیں یقین تھا کہ وہ جلد ہی شعر و ادب کی دنیا میں اپنا مقام حاصل کرے گا۔ وہ اپنے پروفیسر کا چہیتا طالب علم تھا اور فورتھ ایئر میں آکر ’’سولجرز‘ گروپ کا سیکرٹری بن گیا تھا اور کالج میگزین ’’نخلستان‘‘ کے اردو حصے کا ایڈیٹر بھی! ادب سے ہمارا سانجھا شغف رفتہ رفتہ ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آیا اور جلد ہی ایک ایسی گہری جذباتی اور دلی وابستگی کی بنیاد بن گیا جو اوائل جوانی میں ہی ممکن ہے اور زندگی کی حسین ترین چیزوں میں سے ایک ہے۔تقریباً ہر شام کو میں ندیم کے ہاسٹل کے مانیٹر والے بالائی کمرے میں ہوتا۔ وہ مجھے اپنی اس روز کی نظم سناتا اور میں کبھی کبھار اسے اپنی لکھی ہوئی کسی مہماتی کہانی کا حصہ سناتا۔ ان دنوں میں بڑا ہو کر اسٹیونسن کی طرح لڑکوں کے لیے مہماتی ناول لکھنے کی امنگ رکھتا تھا۔ (میں فوری طور پر ایک بحری قزاق بھی بننا چاہتا تھا، مگر اس خواہش کی تکمیل میں کئی ایک دقتیں حائل تھیں۔) آہ اوائلِ جوانی کے سنہری سپنے! یہ شاذ و نادر ہی پورے ہوتے ہیں، لیکن زندگی کی روکھی پھیکی، اُکتا دینے والی وادی میں ان کی دمک مرتے دم تک انسان کے ساتھ رہتی ہے۔
میں اپنے اوائلِ جوانی کے ان ایام کی یادوں میں زیادہ دیر اٹکنا چاہتا ہوں، مگر ندیم نے ’’جلال و جمال‘‘ کے طویل دیباچے میں ان ڈھالنے والے (formative) دنوں کی اتنی کہانی پہلے ہی لکھ دی ہے جتنی وہ بتانا مناسب سمجھتا تھا۔ اس کی صلاحیتوں کا رخ مختصر افسانے کی طرف موڑنے میں غالباً میرا بھی تھوڑا بہت ہاتھ ہے۔ میرے اکسانے پر ندیم نے رائیڈر ہیگرڈ کے طرز میں ایک لمبے مہماتی ناول کا آغاز کیا۔ اس نے اس کے اسّی یا نوّے صفحات لکھ لیے اور مجھے پڑھنے کے لیے دیے۔ اور پھر اس نے ہمت ہار دی۔۔۔ یہ اس کا genre نہیں تھا۔ وہ پنجاب کے دیہات کے اصلی لوگوں کی اصلی جیتی جاگتی کہانیاں لکھنا چاہتا تھا۔ بحری قزاق اور جنگلی آدمی اس کی طبیعت کو راس نہ آئے۔ میں نے اسے مختصر افسانے لکھنے کا حوصلہ دلایا اور جلد ہی وہ اس کام میں جٹ گیا۔ کئی دفعہ شام کو گھر سے کالج گراؤنڈ آتے ہوئے میں اُسے گھاس پر لیٹے یا کسی بنچ پر بیٹھے اپنا افسانہ لکھنے میں منہمک پاتا۔ پہلی ہی کہانی شاید اختر شیرانی کے رسالے ’’رومان‘‘ میں اشاعت کے لیے قبول کر لی گئی جس سے اس کی ہمت بندھی اور اس نے چند ایک اور کہانیاں لکھیں۔ (ان میں سے بعض کہانیاں بعد میں اس کے پہلے مجموعے ’’چوپال‘‘ میں اشاعت پذیر ہوئیں۔) اس طرح شاعر کے علاوہ وہ افسانہ نگار بھی بن گیا۔ ان دونوں اصناف سے وہ ان دنوں آسانی اور آسودگی کے ساتھ نپٹ لیتا تھا اور کالج سے فراغت کے بعد اس نے اپنے فنِ افسانہ نگاری میں کمال حاصل کرنے کے لیے کئی سال بڑی ریاضت کی۔ اس کی مشہور اور بڑی کہانیاں کئی سال بعد کی پیداوار ہیں، مگر بہاول پور کالج کے وہ دو سال وہ عرصہ تھا جب اس کے ادبی ذوق کی کونپلیں نکلیں اور مستقبل کا شاعر اور افسانہ نگار پیدا ہوا۔
کالج سے فراغت کے بعد ندیم بہاول پور سے چلا گیا اور وہ پُر اذیت اور کرب ناک مہینے جو اس نے لاہور میں ڈگری ہاتھ میں لیے کسی چھوٹی سی ملازمت کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے گزارتے، ان کی تلخی اور ہولناکی وہ ابھی تک نہیں بھول سکا۔ جس دفتر میں وہ جاتا ’کوئی اسامی خالی نہیں‘ کی تختی اس کا خیر مقدم کرتی۔ باہر کی دنیا کی نامہربانی اور بے دردی نے اس خام دہقانی نوجوان کے حساس دل کو بری طرح مجروح کیا اور کئی بار اس نے خودکشی کرنے کی ٹھانی۔ اپنی بوڑھی ماں کی محبت اور اپنے ستارے میں ایمان نے اسے یہ انتہائی قدم اٹھانے سے روکا۔ بہت سے دن اس نے بغیر کچھ کھائے پیے گزارے۔ کئی راتیں لاہور کے گلی کوچوں میں چلتے چلتے کاٹیں۔ اس سارے عرصے میں ہم ایک دوسرے سے مستقل خط و کتابت کرتے رہے۔ اس کے خط شدید جذبات سے بھاری، لبریز اور لمبے ہوتے تھے۔۔۔میرے پاس بیرنگ آتے تھے، کیونکہ ڈاک کے عام لفافے کا ٹکٹ اتنے فراواں مواد کی ترسیل کے لیے کفایت نہیں کرتا تھا۔ ہر خط میں وہ اپنی بوڑھی ماں کا ذکر ضرور کرتا جس کی کوکھ نے اسے جنا تھا اور جو اس کے نزدیک ساری دنیا کی عظیم ترین عورت تھی۔ ندیم اپنی ماں کو حقیقتاً پوجتا تھا۔ اس کی دل جوئی کی خاطر، اس خاطر کہ وہ اپنے بیٹے کے کارناموں پر غرور کر سکے، وہ ادب کے آسمان پر اپنا نام درخشاں سونے کے حروف میں رقم کرنے کے لیے تڑپتا۔ میں ندیم کوپنسل سے لمبے خطوں کے ذریعے جواب دیتا (ان دنوں میں ہمیشہ پنسل سے لکھا کرتا تھا)۔ وہ عموماً نوجوانی کے لااُبالیانہ ناسٹیلجیا، کھلے سمندروں، بادبانی جہازوں اور بحری قزاقوں کی باتوں سے معمور ہوتے تھے۔ (میں نے بحری قزاق بننے کا مصمم ارادہ کر رکھا تھا اور یہ یقین رکھتا تھا کہ اس کے علاوہ کوئی اور کیریئر مجھے راس نہیں آ سکتا۔) نوخیز جوانی کی متوالی خود پرستی اور کھری خود غرضی میں ندیم کے دکھوں اور اذیتوں کی داستان مجھے ضروری حد تک دل گرفتہ نہ کرتی اور میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کے لمبے پُر درد خطوط پڑھنے کے بعد میں خون کے آنسو روتا تھا۔ خودنگر اور خود رحمی سے مغلوب نوجوانوں نے اکثر ایسے ناسٹیلجک خطوط ایک دوسرے کو لکھے ہیں۔ ندیم کے چند خط میرے باپ کے ہاتھ آ لگے۔ وہ گھر کے پتے پر بھیجے جاتے تھے اور میرا باپ تجسّس کی وجہ سے انھیں کھول کر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک خط اس نے سارے کنبے کے سامنے چٹخارے لے لے کر اور کٹیلی طنزیہ رائے زنی کے ساتھ پڑھا۔ (میں غصے اور شرم سے کانوں کی لوؤں تک سرخ تھا!) اسے پڑھنے کے بعد اور نوجوانی کی پُر جوش جذباتیت پرکٹ کٹ کرتے ہوئے اس نے اس خط کے ورق میری طرف ان الفاظ کے ساتھ پھینکے، ’’کون ہے تمھارا یہ دوست؟ کیا تم سمجھتے ہو اس کی دماغی حالت درست ہے؟ میرے خیال میں وہ سراسر پاگل ہے۔‘‘ میں تعجب کرتا ہوں کہ اگر میرا باپ ندیم کے نام لکھا ہوا میرا کوئی خط پڑھ لیتا تو اپنے بیٹے کے متعلق وہ کیا رائے قائم کرتا! میری بحری قزاق بننے کی پُر جوش امنگ اس اچھے آدمی کو روئیں روئیں تک ہلا دیتی۔ وہ مجھے آئی.سی.ایس. کے مقابلے کے امتحان میں بٹھانا چاہتا تھا۔ وہ ایک میٹر آف فیکٹ قسم کا، دنیادار، سمجھ دار آدمی تھا۔۔۔ایک ہر دل عزیز، محنتی اور قابل ریونیو آفیسر۔ اس کی شخصیت میں مقناطیسیت تھی، گفتگو میں چمک، اور لوگ، چھوٹے بڑے، اس کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور مجھے شک ہے کہ اپنی دنیوی کامیابی، خوش لباسی اور دینی قیاس آرائیوں کے باوجود اپنے اندرونی وجود میں وہ شاعری کی رمق کے بغیر نہیں تھا، کیونکہ اس کی میز کی دراز میں اولیور گولڈ اسمتھ کی ’’وکرآف ویکفیلڈ‘‘ کا ایک دبیز، سنہری حاشیے کا نسخہ موجود رہتا تھا۔ وہ اکثر اس کتاب کو بڑی مسرت سے پڑھتا اور ہمیشہ مجھے اس کتاب کو پڑھنے کی تاکید کرتا۔ شاید اصل اندرونی آدمی ویکفیلڈ کے پادری کی طرح سادہ لوح، سادہ دل اور بے غرض تھا اور ظاہر ملازمت کی مصروفیتوں اور ماحول کا چڑھا ہوا ملمع تھا۔ (عجیب طور سے، اقبال نے اسے کبھی اپیل نہ کیا اور میں نے اسے کبھی اقبال کا کلام پڑھتے نہیں دیکھا۔ افرنگی قالین اور صوفوں پر اعتراض، پہاڑوں میں بسیرا کرنے کی تلقین اس کے لیے ناقابلِ فہم تھی۔۔۔صاف پاگل پن!) وہ میری مصنف بننے کی کوششوں پر دانت پیستا اور ناراضگی کا اظہار کرتا۔ ادب سے میرا انہماک اس کے نزدیک وقت کا ضیاع تھا۔ اس کی جگہ بھلا میں آئی.سی.ایس. کے مقابلے کے امتحان کی تیاری کیوں نہیں کرتا تھا؟ اب میں کبھی کبھار اپنے آپ سے پوچھتا ہوں، کیا میرا باپ صحیح نہیں تھا؟ کیونکہ برسوں کی خوش فہمی اور جگر سوزی اور جانکاہی کے بعد میں اس حقیقت کو جان گیا ہوں کہ میں ایک غیر اصلی، فرضی چیز ہوں، کہ ایک تخلیقی مصنف بننے کے قدرتی جوہر دیوتاؤں نے مجھے ودیعت نہیں کیے، کہ میں احمقانہ اور بے فائدہ طور پر ایک سراب کا پیچھا کرتا رہا ہوں۔ میں کبھی اسٹیونسن کی ’’ویئر آف ہرمسٹن‘‘ اور ’’ماسٹر آف بیلنٹرے‘‘ جیسی کتابیں نہیں لکھ سکتا یا چھپوا سکتا! اگر میں اپنے باپ کی نصیحت پر عمل کرتا تو شاید زندگی کے کسی اور میدان میں اپنی ہستی کی تکمیل اور آسودہ خاطری اور خوشی پا لیتا۔ مگر اب اپنے خول سے برآمد ہونا میرے لیے ناممکن ہو گیا ہے۔ افسوس، اب وقت گزر چکا!
اس بے ربط غیر متعلق انحراف کے لیے مجھے معاف کرو، مگر ندیم پر یہ مضمون ان دو دوستوں کی کہانی بھی ہے جو جواں سالی کی امنگوں اور سنہری سپنوں سے مخمور، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، ادب و سخن کی وادی میں ظفر و فتح یابی کے جھنڈے گاڑنے نکلے۔ ان میں سے ایک قدرتی شاعر اور کہانیاں کہنے والا تھا اور اپنی منزل پانے میں کامیاب ہوا، دوسرا بناوٹی (Fake) تھا اور راہ میں تھک ہار کر رہ گیا، مگر اس کا کیا؟ دو دوستوں میں سے ایک نے کامرانی پائی تو کیا یہ دوسرے دوست کی بھی کامرانی نہیں تھی؟ کیا دوسرے دوست نے بھی اس پُر تکان رہ نوردی میں خوش آواز دیویوں کے اُلو ہی نغمے نہیں سنے؟
ہماری لگاتار خط و کتابت تقریباً ایک سال تک جوش و خروش سے جاری رہی۔ کاش میں نے ندیم کے اس زمانے کے کچھ خطوط سنبھال کر رکھے ہوتے! وہ اب میرے پاس نہیں۔ ندیم نے میرے کچھ خطوط بحفاظت رکھے، اور جب اس کی پہلی کہانیوں کی کتاب ’’چوپال‘‘ دارالاشاعت پنجاب کے مطبع خانے سے چھپی تو ان خطوط کے کچھ ٹکڑے کتاب کے میرے نام انتساب میں درج تھے۔ ’’چوپال‘‘ میں ندیم کے ابتدائی زمانے کی کہانیاں ہیں اور یہ کتاب غالباً اب بازار میں نہیں ملتی۔ یہ خط و کتابت ایک سال بعد کچھ کم ہونے لگی۔ ہم دونوں اس نوحہ خوانی سے کچھ اُکتا گئے اور دوسری دلچسپیوں اور مشغلوں نے ہماری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ بالآخر یہ تقریباً ختم ہی ہو گئی۔ وہ کیسا زمانہ تھا! میں ندیم کے متعلق نہیں کہہ سکتا لیکن خط لکھنا اب میرے لیے ایک مشکل، کٹھن اور اُکتا دینے والا مرحلہ بن کر رہ گیا ہے۔
لاہور میں اس بے کاری اور مایوسی میں ندیم کو بالآخر ایک سہارا ملا، ایک دوست جس نے اپنی شفقت کے پروں میں لے لیا اور جس کے پاس وہ اپنے غم و اندوہ کا تریاق ڈھونڈنے کے لیے جانے لگا۔ یہ اختر شیرانی، تپتے جذبات اور ایروس (Eros) کا شاعر تھا۔ دو بالکل مختلف رنگ ڈھنگ کے آدمی ایک دوسرے کے قریب کیوں کر آ گئے، مجھے بڑا عجیب لگتا ہے۔ اختر شیرانی اسکاٹ شاعر رابرٹ برنزکی طرح ایک شرابی اور عیاش تھا۔۔۔ مکمل آزاد مشرب اور دائمی رنگیلا عاشق! ندیم تب کالج سے نکلا ہوا ایک خام، صالح نوجوان شاعر تھا جس کے لیے اپنے سے پندرہ سال بڑے شاعر کی اخلاقیات یقینا بے حد کریہہ اور نفرت انگیز ہونی چاہیے تھیں۔ اختر شیرانی ان دنوں ایک ماہانہ رسالہ ’’رومان‘‘ نکالتا تھا اور ندیم کی کچھ چیزیں، نظمیں اور کہانیاں، ’’رومان‘‘ میں چھپیں۔ پنجابی برنز اپنے رند ہونے کے باوجود ایک فن کار تھا۔ اس نے اپنے نوجوان قلم کار کا جوہر بھانپتے ہوئے اس کا حوصلہ بڑھایا اور اسے اپنے پاس آنے جانے کی اجازت دی۔ مجھے یاد ہے ندیم نے مجھے اپنے ایک خط میں لکھا، ’’تم لاہور آؤ گے تو میں تمھیں اختر شیرانی سے ملاؤں گا۔ اس جیسا پیارا آدمی میں نے اور کوئی نہیں دیکھا۔‘‘ معلوم ہوتا ہے اختر شیرانی ایک بڑا فراخ دل شخص تھا اور درد مندی اور انسانی محبت کے جذبات اس میں کوٹ کوٹ کر بھرے تھے۔ ندیم کو کئی بار اختر کے گھر پناہ ملی۔ اختر کے اپنے وسائل محدود تھے، مگر اس نے کئی بار ندیم کو اپنے ہاں زبردستی کھانا کھلایا اور ایک دوبار اسے کچھ رقم دینے کی بھی کوشش کی۔ میرا خیال ہے ایک وقت ان کے تعلقات کافی گہرے تھے اور ندیم اپنا بہت سا وقت شرابی اور عیاش مزاج شاعر کی صحبت میں گزارتا تھا۔ اختر شیرانی کے لیے بڑی محبت اور قدر کے باوجود ندیم نے خود کو پنجابی برنز کے رنگ میں نہ رنگنے دیا، یا جیسا کہ ندیم کہے گا، اس کا دامن معصیت سے آلودہ نہ ہوا اور اس کی جوانی بے داغ رہی۔ اس نے اپنے ہر قسم کے اخلاق سے آزاد مربی کے ساتھ ہم نوشی سے اجتناب کیا اور نہ اس کی ہمرہی میں سلماؤں کے شکار کو نکلا۔۔۔وراثت کے اخلاقی ٹیبوز بہت سخت تھے۔
انھی دنوں ندیم نے ایک خط میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ ’نور الٰہی محمد عمر‘ کی طرح ہماری چیزیں دونوں کے مرکب نام ’ندیم خالد‘ کے نام سے چھپیں۔ میں اس میں متامل تھا اور میں نے اس تجویز سے اتفاق نہ کیا، جس کا میرے خیال میں ندیم نے قدرے برا مانا۔ مگر میرے پاس اپنی وجوہ تھیں۔ میں حقیقتاً اپنا نام چھاپے میں دیکھنا چاہتا تھا، ادبی فلک پر جگمگانا چاہتا تھا، مگر اپنے دوست کی نگارش کے کریڈٹ میں مجھے شریک ہونے میں عذر تھا اور ندیم کی نظموں اور کہانیوں پر اپنا نام دیکھ کر میری انا کو کوئی تسکین نہیں ہو سکتی تھی۔ اپنے نام کو چھپا ہوا دیکھنے کا آسان طریقہ یہ ضرور تھا مگر میں ادھار مانگے ہوئے کلاہ اور چغے میں ادب کی دنیا میں نہیں گھسنا چاہتا تھا، اور سانجھی سارنگ نوازی مجھے پسندیدہ نہ لگی۔ ہم کبھی اچھے ہم کار (collaborator) نہ ثابت ہوتے اور ہماری دوستی اس تجربے سے صحیح سلامت بچ کر نہ نکل پاتی۔ میں نہیں جانتا کہ نور الٰہی اور محمد عمر کے باہمی تعلقات کیسے تھے اور ان میں سے ایک، دوسرے کے بارے میں کیسے خیالات رکھتا تھا۔ یہ ممکن ہے کہ ہم کاری کے چند سالوں کے بعد نور الٰہی محمد عمر کی صورت سے سخت بیزار ہو گیا ہو اور محمد عمر نور الٰہی کو سامنے آتا دیکھ کر پاس کی کسی گلی میں ڈبکی لگا جاتا ہو۔ جذباتیت ہمیشہ احمد ندیم قاسمی میں رچی بسی رہی ہے۔
وہ ادبی حلقوں میں جلد ہی جانا پہچانا ہو گیا۔ اس کی شاعری میں ایک سادگی، نغمگی اور معصومیت تھی جو ہر ایک کو بھا گئی۔ اس کی کئی غزلیں، سیاسی نظمیں ’’انقلاب‘‘ میں چھپیں اور ان میں سے ایک، جو کافی اچھی اور زوردار تھی، اس نے ’سولجرز‘ کی میٹنگ میں پڑھ کر سنائی۔ اختر شیرانی کے بعد مولانا عبدالمجید سالک نے جواں سال شاعر کو اخلاقی اور مالی سنبھالا دیا۔ سالک نیاز مندانِ لاہور کے حلقے کا روح رواں، انقلاب میں ناقابلِ تقلید، نکھری نثر میں ’’افکار و حوادث‘‘ کا راقم، ادبی اور سیاسی حلقوں میں بار سوخ تھا۔ اس کی دلچسپ، شگفتہ، چٹکلوں سے بھری گفتگو نے ندیم کو گرویدہ کر لیا اور ندیم نے بھی اس کے دل میں جگہ پیدا کر لی۔ عمروں کے تفاوت کی وجہ سے ندیم نے ہمیشہ اپنے تعلقات میں حفظِ مراتب کو ملحوظ رکھا۔ مولانا عبدالمجید سالک کے توسط سے وہ ’نیاز مندانِ لاہور‘ کے گروپ کے مشاہیر اور دوسرے ادبی لوگوں سے متعارف ہوا۔ دارالاشاعت پنجاب کے امتیاز علی تاج کو اپنے بچوں کے ہفتہ وار رسالے ’’پھول‘‘ کے لیے ایک اچھے مدیر کی جستجو تھی۔ سالک کا امتیاز علی تاج سے بڑا یارانہ تھا، اور جیسا کہ جاننے والے جانتے ہیں (اور یہ کہنا بے رحمی نہیں) تاج کی مشہور تمثیل ’’انارکلی‘‘ کی نگارش کو سنوارنے، اس کے اسلوب کو نکھارنے میں سالک اور پطرس نے بڑی کاوش کی تھی۔۔۔کیونکہ ’’چچا چھکن‘‘ کا مصنف بھی اوریجنل ادیب نہیں تھا۔ سالک نے تاج سے ’’پھول‘‘ کی ادارت کے لیے ندیم کی سفارش کی، بلکہ ندیم کو اپنے دوست کے حوالے کر دیا۔ اس طرح یہ دیہاتی خام نوجوان ساٹھ روپے ماہوار پر ’’پھول‘‘ کا مدیر تعینات ہوا۔ دارالاشاعت پنجاب کا اصل مہتمم اور منصرم تاج کا بڑا بھائی سید حمید علی ایک مزاج دار، سخت گیر شخص تھا، ناک بہنے کی مستقل بیماری کی وجہ سے چڑچڑا اور بے حوصلہ۔ ندیم نے ’’پھول‘‘ کو بچوں کا ایک اول درجے کا پرچہ بنانے میں بھرپور محنت کی۔ لیکن وہ سید حمید علی کا تنخواہ دار ملازم تھا اور اس ادارت میں اسے خوشی حاصل نہ ہوئی۔ وہ اس ملازمت سے چمٹا رہا، کیونکہ روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے دو وقت کی روٹی ضروری تھی۔ سالک، جو ندیم سے اپنے بیٹے کی سی محبت کرتا تھا، اس کی دل جوئی کے لیے اکثر وہاں آنکلتا، اس کی غمی اور اداسی کو بھانپ کر ہنسی مذاق کی باتیں کرتا اور پھر کسی نہ کسی حیلے سے حمید علی سے اجازت لے کر اسے کسی ہوٹل میں کباب کھلانے لے جاتا۔ ’’پھول‘‘ میں ندیم نے بچوں کی کتنی ہی اچھی نظمیں لکھیں۔ سالک کے کہنے پر ندیم نے اپنی کہانیاں کتاب کی صورت میں طباعت کے لیے جمع کیں اور سید حمید علی اس کے جملہ حقوق دو سو روپئے میں خریدنے پر راضی کیے گئے اور اس کی پہلی کتاب موسوم بہ ’’چوپال‘‘ دارالاشاعت پنجاب کے مطبع سے شائع ہوئی۔ ایک مصنف کی پہلی کتاب اس کے لیے ایک بڑا ناقابلِ یقین واقعہ ہوتی ہے اور بعد کی زندگی میں کوئی مسرت، اس پہلی کتاب کی مسرت کی طرح تاباں نہیں ہو پاتی۔ ایک دبیز، مجلد کتاب کی پیشانی پر اپنا نام دیکھ کر خوشی اور غرور سے وہ کچھ دن ہوا میں اڑا ہوگا۔ ’’چوپال‘‘ میرے نام منسوب تھی اور اس نے اس کی ایک جلد مجھے بھی بھیجی۔ میں اس کی خوشی میں برابر کا شریک ہوا۔ میں اپنے دوست کی کتاب کو چھپا ہواپا کر اتنا خوش تھا جیسے یہ کتاب خود میں نے لکھی ہو۔ کافی عرصہ میں ’’چوپال‘‘ کو اپنے سرھانے تلے رکھ کر سوتا رہا۔
ان دنوں میں ہی ندیم کی ایک اور کتاب ایک ہندو مہاشے کے نام سے چھپی۔ میں نے وہ کتاب نہیں دیکھی اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کا نسخہ اب بازار میں کہیں موجود ہے۔ یہ رسولِ اکرم کی سوانح تھی اور مہاشے جی نے اس کے لکھنے کا ندیم کو تین سو روپئے معاوضہ دیا اور پھر کتاب کو اپنے نام سے شائع کر دیا۔ یہ غالباً ڈھائی تین سو صفحات کی پورے سائز کی کتاب تھی، ندیم کی تین چار ماہ کی جانکا ہی کا نتیجہ۔ یہ ایک نادار فاقہ کش مصنف کے استحصال کی ایک دلچسپ مثال تھی۔۔۔ اور یہ غالباً واحد مثال نہیں! ندیم اب شاذ ہی اس کا ذکر کرتا ہے۔ مہاشے جی کی چال بازی اور کتاب کا ضیاع اسے بھول چکا ہے۔ اس کتاب میں غالباً کوئی ادبی خوبی نہ تھی۔
وہ دارالاشاعت پنجاب سے قریب قریب ایک سال منسلک رہا اور پھر اپنے ایک رشتہ دار میجر کی معاونت سے محکمۂ ایکسائز میں سب انسپکٹر جا لگا۔ اس ملازمت کے فرائض اس کی فطرت کے بالکل منافی تھے اور اس نے خود کو پانی سے باہر آئی ہوئی مچھلی کی طرح محسوس کیا ہوگا۔ اسے کئی بار ایسے کام کرنا پڑے جو وہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ یقینی ہے کہ ایکسائز کے محکمے میں ایسا سیدھا سادا، مکروحیلہ سے عاری، رقیق القلب عہدے دار کبھی بھرتی نہیں ہوا ہوگا۔ پھر بھی میرا قیاس ہے کہ اس کی زندگی کا وہ ایکسائز انسپکٹری کا عرصہ نسبتاً خوشی اور خاطر جمعی کا دور تھا۔۔۔ ایک اچھی آرام دہ فراغت کی سرکاری ملازمت، معاش کی طرف سے اطمینان، خوش باش بے فکرے دوستوں کی صحبت۔۔۔ زندگی بری نہیں تھی! اسے قمار بازوں، شرابیوں، چرس پینے والوں اور انسانی سوسائٹی کی تلچھٹ سے ملنے جلنے، ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اس نے دریافت کیا کہ ان میں سے بعض کا دل سونے کا تھا اور روح معصوم! وہ صرف اپنے حالات کے مارے تھے اور عزت دار اور کامیاب لوگوں سے زیادہ خلوص اور دردمندی اپنے اندر رکھتے تھے۔ یہ ماحول ایک کہانیاں لکھنے والے کے لیے ایک اچھا کارآمد اسکول تھا۔۔۔کم از کم ایک ٹی ہاؤس سے بہتر!
بلا شبہ وہ اس ملازمت کی جکڑ بند سے بالآخر اکتا گیا۔ وہ سب انسپکٹری کے مخصوص سانچے میں نہ ڈھل سکا اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کی ناراضگی کی پروا کیے بغیر ایک صبح اس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ پھر لاہور میں اپنے مقدر کے ستارے کی جستجو میں آگیا۔ اس کے لیے ایک شاعر اور کہانی کہنے والے کے سوا اور کوئی کیرئیر نہ تھا!
بہاولپور کالج سے بی. اے. کرنے کے بعد۔۔۔سال 1939 میں۔۔۔ میں لاہور کالج میں داخل ہوا؛ اس لیے نہیں کہ قانون سے یا کسی اور دنیوی کیرئیر سے مجھے کوئی لگاؤ تھا بلکہ محض اس وقت تک دم لینے کا وقفہ حاصل کرنے کے لیے جب میں بحری قزاق بن سکتا تھا یا تبت میں جاکر دلائی لاما کے چرن چھوکر مکتی حاصل کر سکتا تھا۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اپنی طبیعت میں کسی بل کی وجہ سے نارمل دنیاوی سانچے میں نہیں ڈھل سکتے اور جن کے لیے ہمیشہ انوکھے رومانی خوابوں میں جینا مقسوم ہوتا ہے۔ قانون سے بھلا مجھ کو واسطہ! میں جو فطرتاً ایک لا قانونی اور جنگلی مخلوق تھا۔ وہ لوگ جو میری طرح خوابوں میں رہتے ہیں، اکثر شرمیلے، اپنے ہم جنسوں سے خائف اور مطلقاً غیر عملی ہوتے ہیں اور ایسا ہی میں بھی تھا۔۔۔ایک انیس سالہ بھولا بھالا، جھجکنے والا لڑکا، زندگی کی شکست وریخت میں مار کھا جانے والا!
ندیم تب اپنی ایکسائز انسپکٹری سے بھاگ آنے کے بعد لاہور میں تھا اور ہم اکثر ملا کرتے۔ اس زمانے کا لاہور، ملک کی تقسیم سے پہلے کا لاہور، ادبی ہنگاموں سے پُر بہار تھا۔ ’’ادبِ لطیف‘‘، ’’سویرا‘‘ جیسے خالص ادبی پرچے کافی تعدادمیں چھپتے تھے اور پڑھے جاتے تھے۔ تب کے لاہور کو ہم صحیح معنوں میں علم و فن کی آماج گاہ کہہ سکتے ہیں۔ اردو زبان کے چوٹی کے نثرنگار، افسانہ نویس اور شاعر لاہور میں رہتے تھے، اس دھڑکتے ہوئے، کثیرالآباد تاریخی شہر کی فضا کو اپنی صلاحیتوں کے اجالنے کے لیے سازگار پاتے ہوئے۔ اس وقت کا لاہور کہاں گیا؟ اب ادب کے اجارہ دار پروفیسر اور ڈاکٹر رہ گئے ہیں یا لمبے بالوں والے، چشمہ لگے، انٹلکچوئل نوجوان، جو چائے خانوں میں بیٹھ کر کامیو اور سارتر اور پاؤنڈ پر بحثیں کرتے ہیں اور خود کو ان سے کسی طرح کم نہیں جانتے!
ندیم مجھے اپنے ہمراہ چراغ حسن حسرت کے ہاں لے گیا۔ حسرت کی ادارت میں ان دنوں ہفتہ وار رسالہ ’’شیرازہ‘‘ نکلا کرتا تھا، اردو کا ایک قسم کا ’’پنچ‘‘ میگزین، جس کا میں ایک مشتاق قاری تھا اور جس میں اپنے نام کو چھپے ہوئے دیکھنے کے لیے بے تاب تھا۔ اس بے عیب اردو نثر لکھنے والے سے مل کر مجھے قدرے مایوسی ہوئی۔ شلوار اور قمیص میں جھکی ہوئی گھنی مونچھوں والا ایک تند خو، ان گھڑ، لحیم شحیم شخص، میری ایک ادبی آدمی کی ذہنی تصویر کے بالکل الٹ! ان دنوں میرا خیال تھا کہ ادبی لوگوں کو کوئی فرشتوں جیسی نورانی مخلوق لگنا چاہیے۔ اپنی جھجک کے باعث میں اس خوفناک شخص کے سامنے کچھ کہنے کی ہمت نہ کر سکا۔ سب باتیں ندیم نے کیں۔ اس تعارف کا یہ فائدہ ہوا کہ میرے دو تین ہلکے پھلکے مضامین ’’شیرازہ‘‘ کے لیے قبول کر لیے گئے اور میرا نام چھاپے میں نمودار ہوا۔
ایک دن ندیم نے مجھے ایک نوجوان مصنف کے بارے میں بتایا، ماسٹر آف آرٹس نوجوان جس نے ’’ادبِ لطیف‘‘ میں اپنی پہلی ایک دو کہانیوں سے ادبی دنیا کو ایک ہی ہلّے میں سر کر لیا تھا اور ہر کوئی اس کی باتیں کر رہا تھا۔ اس طرح ہم کرشن چندر سے اس کے داتادربار کے قریب واقع اخباری دفتر میں جا ملے۔ ایک ہندو بیوہ خاتون نے انگریزی میں ایک ماہوار فیشن میگزین کی اشاعت کا آغاز کیا تھا اور اس کی ادارت کے فرائض غالباً پچھتّر روپے ماہوار مشاہرے پر کرشن چندر کو سونپے گئے۔ اس بوٹے سے قد، سرمگیں مفکرانہ آنکھوں والے خوبصورت نوجوان کو میں نے پسند کیا۔ اس کی گفتگو دھیمی، سلجھی ہوئی اور دلچسپ تھی۔ مگر زیادہ تر باتیں ایک لمبے، دبلے پتلے، مچھلی کی آنکھوں والے آدمی نے کیں، جو لوہے کی تاروں سے جڑا ہوا ایک پرندہ لگتا تھا جس نے کسی طریقے سے ایک میلے سوتی سوٹ کے اندر راستہ پا لیا ہو۔ بعد میں ندیم نے مجھے بتایا کہ یہ حضرت پروفیسر کنھیّا لال کپور، مشہور طنز نگار تھے۔ اگر میں چاہتا تو ندیم مجھے دوسری ادبی شخصیتوں سے ملانے لے جاتا۔ وہ بیدی، اشک، دیوندر ستیارتھی اور دوسرے ادیبوں کو جانتا تھا۔ پھر محمد دین تاثیر، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر، مولانا صلاح الدین احمد، پرانی روش کے نثر نگار بھی تھے جن سے اس کو خصوصی نیاز مندی تھی لیکن میں ان ادبی ستاروں سے ملنے سے کتراتا رہا۔ میں ادبی لوگوں کی صحبت میں نروس اور سہما سہما رہتا تھا اور اب بھی میرا وہی حال ہے۔
جیسا کہ قرائن سے ظاہر ہے، میں قانون کے پہلے سال میں فیل ہوا۔ میں نے قانون کی کسی کتاب کو اٹھا کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی اور امتحان کے پرچوں میں میں نے بڑے اوٹ پٹانگ، پُرمذاق اور غیر متعلق جواب دیے۔ انجینئرنگ کالج میں داخلہ مل جانے سے لاہور میں میرا قیام مزید پانچ سال رہا۔ ندیم میوروڈ پر ایک فلیٹ میں اٹھ آیا تھا اور وہاں ایک سرائے کے کیپر (inn-keeper) کی حیثیت سے رہتا تھا۔ جب بھی میں وہاں جاتا، کوئی ایک درجن کے قریب خوشاب سے آئے ہوئے دیہاتی کمروں کے مختلف کونوں میں چارپائیوں پرمزے سے لیٹے ہوتے۔اتنی وسیع مہمان داری اس سے کب تک نبھ سکتی تھی! بالآخر اسے یہ فلیٹ چھوڑ دینا پڑا۔ ان سالوں میں ہماری دوستی کی لو کچھ بجھنے لگی اور پرانی چمک دمک اور پہلے والی تابانی ماند پڑ گئی۔ ان پانچ سالوں میں ہم سات آٹھ بار سے زیادہ نہ ملے ہوں گے۔ ندیم کا اس کھچاؤ میں کوئی قصور نہ تھا، ایک عجیب ذہنی بیماری کے بادل مجھ پر چھا رہے تھے۔۔۔ گھنے، کثیف اور دم گھونٹنے والے! میں محسوس کرتا جیسے میں ایک گہرے تاریک گڑھے میں پڑا ہوں اور کبھی سورج کو چمکتے نہیں دیکھ سکوں گا۔
ندیم کے یہ سال ادبی حیثیت سے بہت نتیجہ خیز اور بارآور تھے۔ ہر سال اس کی ایک آدھ کتاب بازار میں آتی تھی۔ اس کے افسانوں کے مجموعے ’’بگولے‘‘، ’’طلوع و غروب‘‘، اور ’’شیرازہ‘‘ میں چھپے ہوئے مزاحیہ مضامین کا انتخاب ’’کیسر کیاری‘‘ اسی عرصے میں شائع ہوئے۔ اس کی نظموں اور غزلوں کی کتاب ’’جلال و جمال‘‘ اور دیہاتی رومان کے قطعات کے مجموعے ’’رم جھم‘‘ نے اس کی شاعری کی عظمت کا سکہ ان لوگوں پر بھی جما دیا جنھیں اس کے جینئیس کے بارے میں کوئی شک تھا۔ اسے اپنے نام کو آدھی درجن کتابوں کی پشت پر چھپا ہوا دیکھ کر مسرت ہوتی ہوگی۔ شاعری اور افسانہ نگاری میں اس کی انوکھی صلاحیتوں نے مولانا صلاح الدین احمد جیسے ناقدوں سے داد وصول کی۔ اس کے قلم نے پنجاب کے دیہات کے رومانس اور حسن کو تابناک، کھنکتے ہوئے الفاظ میں اپنی کتابوں میں مسخر کیا۔نسبتاً کم عمرمیں۔۔۔ چھبیس ستائیس سال کی عمر کو پہنچنے تک۔۔۔ وہ اردو ادب کی دنیا میں اپنی شہرت کو مستقل بنیادوں پر قائم کر چکا تھا اور اگر اس غریب دہقانی نوجوان کے دماغ کو اپنے معاصرین کی تحسین نشیلی شراب کی طرح چڑھی تو یہ قدرتی تھا اور ہم اسے اس پر الزام نہیں دے سکتے۔
مگر یہ سال اس کے لیے انتہائی تنگی اور عسرت کی تلخ کامیوں سے پُر تھے اور فکرِ روزگار نے اس کی پریشان حالی کو کم نہ کیا۔
آنے والے سالوں میں اس کی اپنی روزی کمانے کی جدوجہد، ناشروں اور مدیروں کی نازبرداریاں، مکتبۂ جدید کے چودھری نذیر احمد مرحوم کے ماہنامے ’’ادبِ لطیف‘‘ کی ادارت، آل انڈیا ریڈیو میں دو تین سال کی ملازمت، میاں افتخار الدین کے اخبار ’’امروز‘‘ میں ’’پنج دریا‘‘ کے قلمی نام سے مزاحیہ کالم نویسی، بعد میں خود اس کرسیِ ادارت پر جمنا جسے چراغ حسن حسرت اور بالیاقت، کم نصیب ادیب نے خصوصیت بخشی تھی، پھر پروگریسوپیپرز کی حکومت کی تحویل میں آنے پر اس سے علاحدگی، وغیرہ۔۔۔ اس سب کچھ کے بارے میں میں ذکر نہیں کروں گا۔ اس پندرہ سال کے عرصے میں ہم کبھی کبھار ہی یکجا ہوئے اور ہماری خط و کتابت عملاً بند رہی۔ ان سالوں کی حقیقی اور دلچسپ داستان ندیم کو خود لکھنی چاہیے اور ممکن ہے وہ کبھی اس کو لکھے گا، جب اسے زندگی کی پگڈنڈی پر دم لینے اور شام کے جھٹپٹے میں طے کیے ہوئے رستے کو مڑ کر دیکھنے کی فرصت میسر ہوگی۔ اور میری خواہش ہے کہ یہ داستان محض واقعات اور اپنے معاصرین کی حکایات کو ذکر میں نہیں لائے گی بلکہ اس کے ’اندر کے آدمی‘ کی کہانی بھی ہوگی، گو مجھے اس میں شبہ ہے کہ وہ اتنی جرأت، اتنی پُر صداقت بے باکی بروئے کار لا سکے گا جو ایسی خود نوشت کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اسے اپنی پروڈری کو جھاڑنا اور اس بہروپ کو جسے پہن کر ہم سب دنیا کے کاروباروں میں اپنے ہم نفسوں کے روبرو جاتے ہیں، اتار پھینکنا ہوگا۔ اس کی مرنجاں مرنج طبیعت، وضع داری، اخلاق پرستی، قدیم روش سے فطری لگاؤ۔۔۔اس کی ظاہری شخصیت کی یہ خوبیاں اس کے اصلی اور سچی بات کہنے کی راہ میں آڑے آئیں گے۔
1962 میں ایک روح فرسا ملازمت کی بیڑیاں پہنے، جن کے لیے میں بالکل نااہل تھا، صحت، امنگ اور ذوقِ زیست میں لٹا ہوا، شدید خود رحمی اور خوف کا شکار، زندگی کے پُر تموج سمندر میں ایک تھکا ہارا تیراک، میں لاہور آیا۔ ندیم سے ملاقاتیں ہونے لگیں، گو آغازِ دوستی کا وہ پہلا والہانہ شعلہ پھر نہ جلا۔ ندیم اپنی معاش کی کٹھن آزمائشوں کے باوجود میرے بارے میں حقیقتاً مشوش تھا۔ وہ ہر ممکن طور پر میرے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتا۔ وہ میری حالت پر افسوس کرتا اور رحم کا اظہار کرتا۔ کوئی آدمی کتنا ہی تباہ و برباد ہو، رحم کھایا جانا پسند نہیں کرتا اور اپنے اس ہمدرد، حوصلہ مند اور خلیق دوست کا میرے لیے تردّدمجھے بعض اوقات ناگوار گزرتا۔ ایسا رحم، میں سمجھتا ہوں، ایک طرح کی بے رحمی ہے۔
یہاں میرے بھارت بلڈنگ کے دفتر میں ایک دن ندیم میرے پاس آیا۔ اس نے مجھے بتایاکہ اس نے ایک ادبی مجلّہ ’’فنون‘‘ نکالنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کا ڈیکلریشن لے لیا گیا ہے، دفتر کے کمرے کا بندوبست بھی ہو گیا ہے اور اس کا پہلا نمبر دو مہینے کے اندر اندر اشاعت پذیر ہو جائے گا۔ اس نے مجھ سے ’’فنون‘‘ کے لیے کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔ میں کچھ سوچ میں پڑ گیا۔ پچھلے پانچ چھ سال اپنی گھونٹ دینے والی مایوسی میں میں نے اردو کی ایک سطر نہیں لکھی تھی۔۔۔خط تک نہیں۔ اپنے فیک (fake) ہونے کو جانتے ہوئے میں نے مصنف بننے کی خواہش کسی افسوس کے بغیر ترک کر دی تھی۔ لیکن اتنے اچھے ہمدم سے میں کیونکر انکار کرتا، جب یہ اس کی دلی خواہش تھی کہ میں ’’فنون‘‘ کے لیے لکھوں۔ میں نے اس سے کچھ لکھنے کا وعدہ کر لیا۔ اس وقت سے میں باقاعدگی سے ’’فنون‘‘ میں لکھتا رہا ہوں۔۔۔تبصرے، مزاحیہ مضمون، کہانیاں۔۔۔ اور اس مجلے کے چند ہی شمارے ایسے ہوں گے جن میں میرا نام نہ چھپا ہو۔ ندیم نے ہمیشہ اپنی تعریف سے میری ہمت بندھائی اور جو چیز بھی میں نے ’’فنون‘‘ کے لیے بھجوائی، اس میں شائع ہوئی۔ ان تبصروں اور مضامین کو کوئی دوسرا ایڈیٹر آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا؛ وہ ایک مربیانہ انداز اختیار کرتا اور زبان و بیان کی خامیوں کی طرف میری توجہ دلاتے ہوئے انھیں لوٹا دیتا۔ ’’فنون‘‘ میں میں جو چاہتا تھا لکھتا تھا۔ میرے بعض تبصرے ندیم کو اچھے اور متوازن نہیں لگے ہوں گے، تاہم وہ کسی قطع و برید اور ایک لفظ کے حذف کے بغیر چھپے۔ اس سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ وہ اتنا پروڈ نہیں۔ اس طرح میرے ادبی کیرئیر کا پھر سے آغاز ہوا۔ میں اپنے فیک ہونے کی دل شکستگی کو بھول گیا۔ اپنے نام کو چھپا ہوا دیکھنے کی مسرت کافی تھی۔
میری صحت اسی طرح خراب تھی۔ میرے معدے کا نظامِ ہضم درست نہ ہوا۔ مگر ندیم کے ’’فنون‘‘ نے مجھے منزل بہ منزل گرنے اور اپنے فطری ملکے (instinct)کی مکمل معدومی سے بچا لیا۔
احمد ندیم قاسمی کی عمر اب چھپن برس ہے، اس کے بال کھچڑی ہو چلے ہیں، مگر اس کی عام تندرستی اچھی ہے۔ وہ اب سمن آباد میں اپنے ایک متواضع اور صاف ستھرے چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے۔ ایک نرم دل باپ، ایک اچھا، خیال رکھنے والا شوہر، ہمیشہ خوش اخلاق، متواضع، ہنس مکھ، کسی قدر محتاط اور مطلقاً راست رو اور بری عادتوں سے پاک۔ آمدنی کے محدود ذرائع کے باوجود اس کا ہاتھ بڑا کھلا ہے اور مجھے کچھ کچھ شک ہے کہ وہ روپئے کی قدروقیمت سے پوری طرح واقف نہیں۔۔۔وہ روپیہ جس کے نہ ہونے سے وہ ایک وقت پریشان حال رہتا تھا اور اس کے پانچوں حواس ماؤف ہو چلے تھے۔ انگریزی ادب اس نے زیادہ نہیں پڑھا اور کالج میں شیکسپیئر اور نصاب کی کتابیں پڑھنے کے بعد اس نے زیادہ تعداد میں مغربی ناول یا مختصر افسانے نہیں پڑھے ہوں گے۔ موپاساں، ترگنیف، چیخوف کی کہانیاں، ایلیا اہرن برگ کے دو ایک ناول، شاید کا میو اور سارتر کی اِکا دُکاکتاب۔۔۔ایک اوریجنل مصنف کے لیے، جیسا کہ وہ ہے، اسے گھاٹا نہیں کہا جا سکتا۔ ولیم شیکسپیئر اور وارث شاہ (میں ان کاندیم سے موازنہ نہیں کر رہا)۔۔۔ دو بڑے اوریجنل اور حیرت انگیز شاعر۔۔۔بنیادی طور پر ’پڑھنے والے‘ نہیں تھے، انھوں نے بہت کم کتابیں چاٹی ہوں گی، مگر ان کا نفسیاتِ انسانی کا خلقی مشاہدہ اور فطری قوتِ بیان ایسی تھی جو بہت کم لوگوں کو قدرت ودیعت کرتی ہے۔ ندیم نے البتہ اردو کے کلاسیکی شعرا کے دیوان ایک طالب علمانہ شغف سے مطالعہ کیے ہیں اور علمِ بحور کے متعلق اتنا کچھ جانتا ہے جتنا کوئی جان سکتا ہے۔ اس کی ’’جلال و جمال‘‘ کے بعد کی شاعری میں ایک کلاسیکی کاملیت (perfection) اور گہرائی ہے۔ مگر ذاتی طور پر میں اس کے پہلے دور کی شاعری سے اس کی سادگی، نکھار اور سچی جذباتیت (passion)کی وجہ سے محبت کرتا ہوں۔ اس میں سوندھی سوندھی زمین کی بو باس ہے۔ اس نے اردو زبان میں بڑے اچھے افسانے لکھے ہیں اور مختلف اسالیب (genres) میں اور اگرچہ اس کی پہلی کہانیاں اپنی اصلی اور سچی دیہاتی فضا کے ساتھ قدرے جذباتیت سے رنگی ہیں، اس کی بعد کی متعدد کہانیوں میں فارم کی پرفیکشن اتنی نمایاں ہے کہ وہ واقعی شاہکار کہی جا سکتی ہیں۔ اس کے نکتہ چیں جو اس کو بڑا افسانہ نگار تسلیم نہیں کرتے، اس کے پاسنگ بھی نہیں۔ ویسے ان صاحبان کے نزدیک بے چارے موپاساں اور ماہم بھی نااہل قصہ گو تھے اور کہانی کہنے کے فن میں بالکل ان گھڑ! ندیم نے شاعری اور افسانہ نگاری کے علاوہ دوسری اصناف میں بھی اپنی لیاقتوں کا استعمال کیا ہے۔ اس نے انگریزی کے گلبرٹ اور سیلواں کے ڈھب پر اردو میں اوپیرا لکھے ہیں، طنزیہ اور مزاحیہ مضامین میں طبع آزمائی کی ہے، ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم اسکرپٹ روانی سے اور قلم برداشتہ تحریر کیے ہیں۔ پھر اس کی روزانہ اخبار میں مزاحیہ کالم نویسی ہے۔۔۔ ہر روز کی پُر تکان مشقت اور تخلیقی فن کار کے لیے ایک بے روح عمل (hack work)! یہ روزانہ کالم اس کی اور اس کے کنبے کی بقا کے لیے ضروری ہیں، اس کا ذریعۂ معاش ہیں، کیونکہ اردو کی ادبی کتابیں بالکل نہیں بکتیں۔ ہوشیار ناشر ایک کتاب کو محکمۂ تعلیم سے منظور کرا کے کتب خانوں میں کھپا دیتا ہے۔ مصنف کی اپنی جلدیں اس کے دوستوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں اور ایک ہزار کا ایڈیشن ختم ہونے میں تین چار سال یا اس سے زیادہ کی مدت لگ جاتی ہے اور اکثر یہ ختم نہیں ہو چکتا۔ منشی پریم چند نے، جو اپنے زمانے میں اردو کے ایک شہرت یافتہ اور مقبول مصنف تھے، اپنی پچھلی عمر میں ایک دفعہ حساب لگایا کہ اپنے درجن سے اوپر ناولوں اور افسانوں کے مجموعوں سے انھوں نے کل بتیس روپئے ماہوار سے زیادہ نہیں کمایا تھا۔ (اس زمانے کے بتیس روپئے آج کل کے تین سو یا چار سو روپئے سمجھ لو۔) کتنا خوش نصیب تھا پریم چند! ان دنوں اردو کا کوئی ادیب بھی اپنی کتابوں سے اتنی آمدنی پیدا کر سکنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ (میں نسیم حجازیوں، ابنِ صفیوں، رضیہ بٹوں کی بات نہیں کر رہا۔) کالم نگاری یقینا ندیم کا اصل genre نہیں، جس طور سے یہ چراغ حسن حسرت کا تھا یا عبدالمجید سالک کا، اس لیے اس میں تعجب کی بات نہیں کہ بعض وقت اس کے کالم اپنے نشانے پر ٹھیک بیٹھتے ہیں اور بعض وقت فائر بینڈ بے رخ پڑتا ہے اور آدمی کو کالم نگار کے ساتھ ہمدردی سی ہوتی ہے۔
وہ ادبی دنیا کی اس بلندی پر پہنچ چکا ہے کہ ادبی انجمنوں، کالجوں کی مجالس اور ہر ایک قسم کے مشاعروں کی صدارت کے لیے اس کی کافی مانگ رہتی ہے۔ ایک ’بیبا‘ انسان ہونے کی وجہ سے وہ انکار نہیں کر سکتا اور اکثر طوعاً و کرہاً اسے یہ اعزاز اپنے سر منڈھنا پڑتا ہے۔ اس کی موجودگی جلسے کی شوبھا بڑھاتی ہے، اس کو امتیاز بخشتی ہے اور جلسے کے مہتمم ایک بڑے ادبی مشیر کو ہتھیا کر فخر و مسرت سے پھولے نہیں سماتے۔ دراصل ایسی صدارتیں اس ملک کی ادبی چہل پہل (literary game) کا ایک جزو ہیں اور شاید ایک مصنف کی ٹیم ٹام کے لیے لازمی بھی۔ میرے دوست کے لیے اب یہ گیم پرانی ہو جانے کی وجہ سے کچھ بور ہو چلی ہے اور میں نے بعض موقعوں پر اسے اپنے مداحوں اور مشتاقوں کی کھیپ کو دیکھ کر پیلا پڑتے اور پھر بڑی وضع داری سے اس تاریخ پر اپنی کسی اور مصروفیت کی اوٹ میں صدارت کی دعوت کو ٹالتے ہوئے پایا ہے۔ ایسے مشکل موقعوں پر اس کاپی اے اختر اسی تاریخ کی کسی اور مصروفیت (engagement) کی یاددہانی کراتا ہے!
ایک ادبی مجلے کے مدیر کو خالص کاروباری شخص ہونا چاہیے، جو وہ اصلاً نہیں۔ وہ حساب کتاب نہیں رکھ سکتا اور میں اکثر تعجب کرتا ہوں کہ وہ ’’فنون‘‘ میں اشاعت کے لیے آنے والے مسودات کو کیونکر سنبھال کر رکھتا ہے۔ وہ کبھی گم نہیں ہوتے۔ ہر ایک مسودہ، نظم ہو یا نثر، وہ خود بغائر نظر پڑھتا ہے، اور ہمیشہ نئی قابلیت کو دریافت کرتا ہے۔ بالکل انجانے، مبتدی لکھنے والوں کے افسانے اس طرح ’’فنون‘‘ میں جگہ پاتے ہیں۔ بہت کم مدیروں میں اصلی اور نقلی نگارش اور کندن اور پیتل میں تمیز کرنے کی اہلیت ہوتی ہے اور وہ چیزیں، اکثر اونچے افسروں یا ڈاکٹر نقادوں یا سکہ بند افسانہ نگاروں کی لکھی ہوئی، جو ان کے مجلوں میں لافانی ادبی شاہکاروں کے دھوم دھڑکے کے ساتھ شائع ہوتی ہیں، ادب سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتیں۔۔۔مہمل، بے لطف الفاظ کی صنعت گری! اور ندیم اپنی پروڈری کے باوجود نئے مصنفوں کی ننگی چیزیں بھی چھاپ دینے سے نہیں ہچکچاتا، اگر ان مصنفوں میں جوہرِ قابل کی آنچ ہو اور فن کی سچی لگن! یہ میں مانتا ہوں ایک حالیہ اور قدرے حیران کن نمود ہے۔ایک دو سال پہلے یہ صورت نہ تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اُس نے بعض اچھی اور اعلیٰ پائے کی کہانیوں کو محض اس لیے اپنے رسالے میں نہ چھپنے دیا کہ ان میں جنسی اعضا اور ان کی کارکردگی کا ذکر تھا۔ پھر اس کی یہ عادت بھی تھی (اور وہ اسے ایک مدیر کا استحقاق سمجھتا ہے) کہ وہ اپنے شاعروں اور افسانہ نگاروں کی تحریروں میں ننگے ’تھری لیٹر‘ الفاظ اور فحش، غیر مہذب خیالات چھانٹ کر ان کی اصلاح کر دیتا تھا۔ تھری لیٹر الفاظ کی جگہ شرافت اور شائستگی کے آئینہ دار الفاظ تحریر میں سج جاتے تھے۔۔۔ اکثر لکھنے والے کے معنی یا خاص تاثر کو جو وہ ان الفاظ سے پیدا کرنا چاہتا تھا، زائل کرتے ہوئے یا ساری تصویر کو ایک نیا رنگ دیتے ہوئے! بہر حال ایسی درستی لکھنے والے پسند نہیں کرتے اور اصلاح دینے والے پر دانت پیستے ہیں۔ کس طرح ندیم کا رویہ اب بدل گیا ہے، یہ میں نہیں جانتا۔ کیا پروڈری کے بادل اب چھٹ رہے ہیں؟ کیونکہ ’’فنون‘‘ کے پچھلے چند شماروں میں چند ایک ایسی چیزیں چھپی ہیں جنھیں دو تین سال پہلے کا ندیم چھاپنے میں جھجک اور رکاوٹ محسوس کرتا۔ ’’فنون‘‘ کے لکھنے والے اپنے ایڈیٹر کی اخلاق پرستی کی ڈھیل کو بھانپ کر اب کھل کھیلنے لگے ہیں۔ یہ شاید ان کے لیے اور خود پارسا ایڈیٹر کے لیے اچھا ہے۔ جدید پود، ممنوعات سے سرکشی پر آمادہ، جنس کو اس طرح لیتی ہے جیسے اینیما کے ڈبے کے استعمال کو!
ندیم کی خط و کتابت کافی وسیع تھی (کتنے لمبے اور جذباتی خطوط اس نے منٹو اور دوسرے ادیبوں کو لکھے ہوں گے!) اور اب بھی اتنی کم نہیں۔ اس کی بیشتر مکاتیب نگار غالباً خواتین ہوتی ہیں۔۔۔ذوقِ ادب و سخن میں مشق کرنے والی عورتیں، نوعمر، ٹین ایج لڑکیاں جن کی ادبی تمنائیں ہیں اور جو ’’فنون‘‘ میں اپنا نام دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ ہمیشہ سخن گذاری کے فن میں ان کی کوششوں کو سراہتا ہے، ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مسرت محسوس کرتا ہے۔ اس طرح ’’فنون‘‘ نے کئی نئی پود کی شاعرات اور افسانہ نگاروں سے، جن میں اصلی لیاقت کی دمک ہے، پڑھنے والوں کو متعارف کیا ہے۔ ندیم دراصل جدید پود کی جذباتی آزادی اور بے جھجک اظہار سے خوش نہیں۔۔۔وہ عصمت و عفت مآب کیوں نہیں ہو سکتیں اور اپنی نگارش میں شائستہ اور اچھے الفاظ کیوں نہیں لکھ سکتیں۔ زندگی کی ہر متبرک چیز کے متعلق ان کا بے راہ رو اور گستاخ (flippant) انداز اسے بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ہائے، دنیا کو کیا ہو رہا ہے؟ یہ اس کی سوچ ہے۔ اس نئی پود کی لکھنے والیوں کو وہ اپنے خطوں میں برادرانہ اور پدرانہ شفقت سے ایک متین لہجے میں نصیحت کرتا ہے کہ وہ یوں اخلاق کی پرانی قدروں کا مذاق نہ اڑائیں اور نیکی و عفت مآبی کی راہ سے نہ بھٹکیں!
کیا میں اپنے دوست کے مرقعے میں رنگ بھرنے میں کامیاب ہوا ہوں؟ کیا اتنے بے ربط، بگٹٹ الفاظ اندر کے آدمی کا کچھ مدھم ساہیولیٰ قائم کر سکے ہیں؟۔۔۔ شاید نہیں! وہ اسی طرح ایک جزیرہ ہے جیسے میں۔۔۔اور میں اس جزیرے کو اس کے درختوں کی خوشبو، اس کے چشموں کی مٹھاس، اس کی پہاڑیوں کی دل آویزی سے پہچانتا ہوں۔ کیسی زندگی اس نے گزاری ہے! اس نے بچپن میں قرآن پڑھا ہے اور سعدی کی گلستاں بوستاں، اپنے گاؤں کی چراگاہوں میں گاؤں کے لڑکوں کے ساتھ کبڈی کھلی ہے، وہ مفلسی اور غربت کی تلخی جانتا ہے، اس نے نظمیں اور کہانیاں لکھی ہیں، وہ کالج میں والی بال کا کپتان رہا ہے، اعصابی مرض نے اسے ایک لمبی مدت تک بے دم رکھا ہے، وہ جیل گیا ہے، اس نے چین دیکھا ہے، اپنے ٹریڈز (Trades) بدلے ہیں، شادی کی ہے اور بچے بچیوں کا باپ بنا ہے۔ جو کچھ پانے کے لیے وہ زندگی کے سفر پر نکلا تھا، اس نے حاصل کیا ہے۔ (واقعی اس نے حاصل کیا ہے؟) زندگی میں بہت سی چیزیں اس نے نہیں کیں۔۔۔ اس نے پتنگ نہیں اڑائی، اونٹ کا سفر نہیں کیا، رابرٹ لوئی اسٹیونسن کو نہیں پڑھا، ہم جنسی کی محبت نہیں کی، کوہ پیمائی نہیں کی، بکرے کی ٹانگوں اور سموں والے یونانی دیوتا کی شہنائی کے دل کش نغموں پر مست نہیں ہوا، نہ ان کی تال پر اوچھے عیاشانہ ناچ ناچے ہیں۔ کنارِ دریا اُسے برہنہ گلعذ ارایروس (Eros) پانی میں پاؤں لٹکائے نہیں ملی اور اس کا دل اس کی رنگین ادا پر نہیں لوٹا۔ وہ اپنے بزرگانِ سلف کے بنائے ہوئے سیدھے راستے سے نہیں بھٹکا، وہ اپنے ہتھے سے نہیں اکھڑا اور نشاط طبعی کی وادیاں، ہپیوں اور آوارہ مزاج روحوں کی پیاری، اس کے لیے اجنبی رہیں!۔ ۔ ۔ اور کئی دوسرے چیزیں!
میں نہیں سمجھتا وہ ان چیزوں کے لیے کبھی پچھتاتا ہے جو اس نے نہیں کیں۔۔۔ اور یہ اچھا ہے۔
یہ ہے وہ بامروّت، انسان کا درد رکھنے والا، خوبصورت آدمی۔۔۔ ایک آدمی، احمد شاہ نامی!

Threats to Canadian Pakistani Journalist Mohsin Abbas

Threats to Canadian Journalist Mohsin Abbas:

I share the synopsis of my Urdu language Op-Ed published at Urdu Times Canada, and USA. A PDF version of an easy to read Urdu File can be read by clicking:

Sahafi ko Dhamki

The news that Canadian journalist of Pakistani origin, Mohsin Abbas has received threats in Canada including death and kidnapping threat to his family in Pakistan have shocked people believing in Freedom of Expression in Canada and elsewhere. Several Canadian newspapers have reported it.
Mohsin Abbas, a Canadian journalist of Pakistani origin, graduated from the International Journalists program at Sheridan College and then interned at Hamilton Spectator for a period of time. I have been associated with this program during my tenure at PEN Canada that was one of its sponsors. He then worked with BBC, ABC, and other international media organization. Pakistan’s most well-known newspaper Dawn, also regularly publishes his opinions.

According to reports Dawn published an Op-Ed by Mohsin Abbas that informed about and satirized several Pakistani candidates at the mayoral elections in various Ontario municipalities. He opined that most of these candidates were not well versed in politics and were also not fully ready to mobilize support due to lack of structured programs. Dawn chose to share the images of the flyer of a losing candidate, Riazuddin Choudhry, who obtained less than 1000 votes out of about 164,000 cast in the mayoral race.

(Dawn’s blurb about Mohsin Abbas reads as, Mohsin Abbas is an award-winning Pakistani-Canadian journalist, filmmaker and press freedom activist. He is the editor of Diversity Reporter, a multilingual weekly newspaper for newcomers and immigrants in Canada.)

Mohsin Abbas alleged in police campaign that after the publication of the Dawn article he received a phone call from Choudhri in which words like killers were used. He also alleged that someone related to Choudhri, and carrying a gun, visited his brother in Pakistan and threatened that if the story was not retracted, two school going children of the brother will be kidnapped. Hamilton Spectator report suggested that they have a certified translation of phone call and that the word killers could be discerned. Halton Regional Police in Canada is investigating the report.

In an interview at another Canadian newspaper Choudhri has denied that allegation, and till the time of publication of that interview he did not participate in Police investigation. He also alleged that Mohsin Abbas owes him a sum of money. He never reported this to the police.

In another twist to this reported, when a Canadian Urdu newspaper Jang Canada published this story, copies of the newspaper mysteriously disappeared from various distribution points. Amir Arain the editor of Jang Canada confirmed that he also received complains about the disappearance of the copies, and was working hard to replenish. Some people have speculated that some supporters of Choudhry may have done that. Which is quite likely since a similar incident occurred several years ago when copies of another newspaper Watan were also removed from various distribution points when it published an advertisement about the annual convention of Ahamdiya Jamaat in Canada. I know of it firsthand since I was associated with Watan, and a religious leader invited me to a mosque expressed anger on the publication of such an advertisement.

I condemn any threat to any journalist in Canada and elsewhere, and also condemn all actions that may harm a newspaper. I also expect that a recently formed organization of Pakistani journalists in Canada will condemn these acts. A senior Canadian-Pakistani journalist Latafat Siddiqui, and Amir Arain of Jang Canada are among the founding members of this organization. Its statement of purpose on its Facebook page reads: “The aim of the organization is to look after Freedom of Expression issues in Pakistani Community in Canada as well as to serve as a watchdog body on issues of Freedom of Expression in Pakistan and elsewhere.”

I am willing to give the benefit of doubt to Choudhri, but expect that he should cooperate with the police to complete the investigation. If he felt that he was libeled against, then he could have sued Dawn, but he has squandered that opportunity.