Yearning to nurture our motherland…..آرزو ہے کہ آباد ہو شہرِ جاں

My Urdu Op-ed published at Nia Zamana of Mohammad Shoaib Adil and print editions of Urdu Times and Pakistan Times.

It argues that even a weak democratic set up is preferable to military dictatorships. That the regular democratic changes of government keeps pushing the Juntas back. It hopes that the results of elections reflect the true aspirations of citizens of Pakistan.
——————————————

آرزو ہے کہ آباد ہو شہرِ جاں

 

جب یہ تحریر آپ کی نظروں میں آئے گی، پاکستان میں انتخابات یا بعضوں کے مطابق یک طرفہ چنائو کا عمل مکمل ہو چکا ہوگا۔ ہم جیسوں کی صرف ایک خواہش اور امید ہے کہ نتائج حقیقی طور پر پاکستان کے عوام کی امنگوں اور مرضی کے مطابق ہوں۔ نتیجہ جو بھی ہو وہ پاکستان کے حق میں بہتر ہو.

 پاکستان روزِ اول سے جمہوریت اور آمریت کے مختلف ادوار سے گزرتا رہا ہے۔ وہاں مقتدرہ کی ایسی آمریت کہ جس پر پاکستان کی افواج کا غلبہ رہا ہے، ہمیشہ ایک مدت سے اپنی من مانی کرتی رہی ہے۔ہمارے  خیال میں پاکستان کی مقتدرہ ،وہاں کے جاگیر داروں، بڑے سرمایہ داروں، اعلیٰ عدلیہ، افسر شاہی، اور بڑے میڈیا ، اور قدامت پرست مذہبی افراد، اور اعلیٰ  فوجی افسران ،کے طاقتور گروہوں پر مشتمل ہے۔ اس کے برخلاف مختلف عرصوں میں ایک کمزور جمہوری آواز  بھی اٹھتی رہی ہے، جسے فوجی آمریت کے عفریت کے ساتھ مصالحت کر کے اپنا دور پورا کرنا پڑا ہے۔

پاکستان کے مقتدر طبقہ کو کمزور جمہوری حکومتیں بھی پسند نہیں ہیں۔ ا س کی وجہہ یہ ہے کہ کسی بھی جمہوری دور میں چاہے وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہوں ، مقتدر طبقہ کی مراعات پر اثر پڑتا ہے اور اس طبقہ کی من مانی پوری طرح سے نہیں ہو پاتی۔ جمہوریت کا ایک خاصہ یہ ہوتا ہے کہ ہر ملک میں رفتہ رفتہ دسیوں بیسیوں سیاسی جماعتوں میں سے دو یا تین جماعتیں سامنے آتی ہیں جن کو عوام اقتدار منتقل کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی کمزور جمہوری تاریخ میں یہ جماعتیں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں میں اقتدار ان ہی میں تبدیل ہوتا رہا ہے ، اور ان پر بھی پسِ پشت مقتدرہ کا دبائو رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی افواج کا ایک غیر دانشمند طبقہ ہماری مقتدرہ کا چہرہ  یا نمائندہ رہا ہے۔

جمہوری اور سیاسی حکومتوں پر لازم ہوتا ہے کہ وہ عوام کی بہبود کے لیئے کام کریں۔ بہبودی کام کرنے کے لیئے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں وسائل غیر مساوی طور پر منقسم ہیں۔کسی بھی حکومت کے مالی وسائل صرف ٹیکسوں پر مبنی ہوتے ہیں۔  وہاں ذراعت اور زمینوں پر ٹیکس نہیں ہیں، اس کی وجہہ یہ ہے کہ ہماری مقتدرہ کا غالب طبقہ زمینداروں اور جاگیر داروں پر مبنی ہے۔جو زرعی ٹیکسوں کو زیادتی گردانتا ہے۔ اسی طرح ٹیکس کا عام نظام بھی قطعاً                   نا کافی اور کمزور ہے۔ تنخواہ دار  اور کاروباری افراد کی ایک اقلیت کو پورے ملک کے وسائل کی فراہمی کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔اس سے جو بھی آمدنی ہوتی ہے اس کا ایک خطیر حصہ فوجی اخراجات کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جس کا واضح حساب کتاب بھی نہیں ہوتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے کہا تھا کہ جمہوری عمل میں بہت  سی جماعتوں میں سے صرف چند جماعتیں حکومتیں بناتی ہیں۔ پاکستان کے وقفہ وقفہ سے مختصر جمہوری دور میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، عوامی نیشنل پارٹی ، ایم کیو ایم ، ابھر کر سامنے آئیں ۔ اورکچھ عرصہ تک اقتدار ان کو یا ان کی مخلوط  حکومتوں کو منتقل ہوتا رہا ۔ ان میں سے پیپلز پارٹی اور اے این پی وہ جماعتیں ہیں جو عام   طور پر مقتدرہ کے زیادہ اثر میں نہیں رہیں۔ اور انہوں نے کچھ ایسے کام کرنے کی کوشش کی جو  عوامی رضا کے قریب ترین تھے ۔ مسلم لیگ عام طور پر مقتدرہ کی حمایتی جماعت رہی۔ اس جماعت کو پاکستان کے قدامت پرست طبقوں کی بھی حمایت حاصل رہی۔

  بعض جمہوری ملکوں میں جہاں اقتدار صرف دو جماعتوں میں منتقل ہوتا رہا ہو، ایک تیسری جماعت بھی ابھر کر آتی ہے۔ پاکستان کے گزشتہ بیس سال میں وہاں جو تیسری جماعت سامنے آئی وہ تحریکِ انصا ف ہے۔ اس نے خود کو کرپشن مخالف جماعت کے طور پرپیش کیا ۔ نظریاتی طور پر یہ بھی مسلم لیگ کی طرح قدامت پرست دایئں بازو کے خیالات کی حامی ہے۔

کسی بھی ملک میں ایسی مقتدرہ جس کی نمائندگی وہاں کی افواج کرتی ہیں، جمہوری عمل کو یا تو اپنے مکمل قبضہ میں رکھنا چاہتی ہے یا کم از کم اپنے زیرِ اثر۔ لیکن جمہوری عمل کی مشکل ہے کہ یہ فطری طور پر مقتدرہ مخالف ہوتا ہے اور ملکی معاملات  میں آزادی چاہتا ہے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ ہماری مقتدرہ مختلف ادوار میں پپیلز پارٹی اور مسلم لیگ پر دبائو ڈال کر  اپنا کام نکالتی رہی۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ اس نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، اور اے این پی کو کمزور اور محدود کرنا شروع کیا۔ پیپلز پارٹی کو سندھ میں دھکیلا گیا، اے این پی کو تقریباً ختم کیا ، اور مسلم لیگ کے دائرہ کار کو پنجاب میں محدود کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مقتدرہ نے ابھرتی ہوئی جماعت تحریکِ انصاف کو اپنے قابو میں کرنا شروع کیا اور پاکستان کے موجودہ انتخابات میں مقتدرہ کی تمام تر حمایت تحریکِ انصاف کو حاصل ہے۔

ہماری اورہم جیسے لاکھوں عوام کی آرزو، امنگ، اور خواہش یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل قائم ہو چاہے وہ بظاہر کمزور  ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ کمزور تر جمہوری عمل ، جابرانہ آمریتوں سے بالخصوص ایسی آمریتو ں سے جس پر فوج کا غلبہ ہو کہیں بہتر ہوتا ہے۔ مسلسل جمہوری عمل اور عوام کے ووٹ کا استعمال جمہور ی روایتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ جمہوری عمل کے ذریعہ منتخب حکومتیں فطری طور پر مقتدرہ کے دبائو سے آزاد ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور رفتہ رفتہ ہر ملک میں جمہوری روایت مستحکم ہوتی جاتی ہے۔

 ہم پاکستان میں جمہوریت کا فروغ اور استحکام چاہتے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ پاکستان کے عوا م کی آرزو بھی یہی ہے کہ ان کا شہرِ جاں جمہوری روایتوں سے آباد اور قائم ہو۔

 

دنیا کی ایک اہم عدالت میں انقلابی تبدیلی کا امکان

My article in Urdu published at Niazamana.com, Urdu Times, and Pakistan Times.
It discusses the forthcoming changes at the US Supreme Court that will tilt into a 6-3 conservative majority,
Such a change would have fa reaching impact on the Society and Social Rights of the US citizen. It will also influence other societies with ascendant fundamentalism, and conservatism in becoming harsher societies.
It will affect women’s rights, racial equality, gender equality, ads well as established scientific thinking.

ہم اور آپ اکثر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے دور رس فیصلوں کے بارے گفتگو کرتے ہیں۔ ان فیصلوں کا پاکستان کے عوام اور سیاست پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ جن میں پاکستان کے وزیرِ اعظم کی برطرفی اور نااہلی کے معاملات بھی شامل ہیں ، اور دیگر آئینی معاملات بھی ۔  پھر ہم پاکستان کی اعلیٰ عدالت کے اعلیٰ منصف کے اس رویہ کے بارے میں تشویش کرتے ہیں جس میں فاضل منصف اپنے سامنے پیش ہونے والوں کے ساتھ بد زبانی  کرتے ہیں اور درشتی سے پیش آتے ہیں۔ یا پھر کسی ذیلی عدالت کے منصف کی تذلیل کرتے نظر آتے ہیں۔

 اور اب تو فاضل مصنف نے پاکستان کے دریاوں پر بند باندھنے کے لیئے چندے جمع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد پاکستان کی مسلح افواج کے افسروں اور سپاہیوں نے اس ضمن میں اپنی تنخواہیں وقف کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے بارے میں فیصلوں کا اختیار صر ف پاکستان کی صوبائی اور وفاقی حکومت کا استحقاق ہے۔حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کا اثر صرف پاکستان پر ہی ہوتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی اس کے سیاسی فیصلوں یا سیاسی معاملات میں دخل اندازی کی باز گشت بین الاقوامی میڈیا تک بھی پہنچ جاتی ہے لیکن صرف ایک چھوٹی خبر کی حد تک۔

پاکستان کے بر خلاف دنیا کی بعض اعلیٰ عدالتوں میں ایسے فیصلے ہوتے ہیں جن کا اثر دنیا بھر میں انسانی حقوق، بین الاقوامی تعلقات، اور روز مرہ کی زندگی پر ہوتا ہے۔ ان عدالتوں کے فیصلوں کی نظیریں دنیا کی دیگر عدالتوں کے فیصلوں پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہیں۔

ایسی عدالتوں میں امریکہ کی اعلیٰ عدالت یا امریکی سپریم کورٹ شامل ہے۔ امریکہ میں نو منصفوں پر مشتمل اس عدالت کے فیصلوں کی باز گشت اور ان کا اثر ہی ہے جس کے نتیجہ میں امریکی جمہوریت اور اس کے سیاسی نظام کا ارتقا ہواہے۔ اس عدالت کے فیصلے امریکہ کے آئین کی تفہیمات کے بارے میں حتمی سمجھے جاتے ہیں۔ کسی بھی  آئینی  فیصلہ کے بعد اس میں تبدیلی یا ردو بدل میں بیسیوں سال لگ جاتے ہیں۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ امریکہ کا آئین وہاں کے شہریوں کے لیئے مذہبی صحیفوں کے بعد ایک انسانی صحیفہ جانا جاتا ہے۔  ایسا صحیفہ کہ جو امریکہ میں قانون سازی کو مذہبی صحیفوں سے دور رکھنے کا ضامن ہے۔

امریکہ کا سیاسی نظام دیگر ممالک کی طرح تین اداروں یعنی مقننہ ، عدلیہ ، اور انتظامیہ کے درمیان ایک بہت ہی محتاط توازن پر قائم ہے۔ امریکی جمہوریت ، صدارتی طرزِ حکومت پر قائم ہے۔ جہاں صدر کے حقوق اور استحقاق بہت زیادہ ہیں۔ ان اختیارات کو آمرانہ نہج پر پہنچنے سے محفوظ رکھنے کے لیئے مقننہ کے دو ایوان اور عدلیہ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امریکہ کے عوام کو کسی ایسی مقننہ کے  فیصلوں سے محفوظ رکھنے کے کے لیے جس میں اکثریت کا ظالمانہ یا غیر منصفانہ رویہ شامل ہو، امریکہ کی اعلیٰ عدالت اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اس کا ہر فیصلہ  نو رکنی مکمل بنچ کا فیصلہ ہوتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کا چناو امریکہ کے نہایت بااختیارصدر کا ایک نہایت اہم استحقاق ہے۔ صدر کو اعلیٰ عدالتوں کے چناو کا حق حاصل ہے۔ اس میں توازن رکھنے اور اسے ایک حد تک غیر جابندارانہ بنانے کے لیے امریکی مقننہ کا اعلیٰ ایوان ،  یا سینیٹ،  صدر کے نامزد کردہ جج کے بارے میں نظرِ ثانی کا  ذمہ دار ہے۔ وہاں کا سیاسی نظام اس طرح کا ہے کہ اکثر صدارت ایک جماعت کا ہوتا ہے ، اور اس کی مقننہ کے دو ایوان صدر کی جماعت سے مختلف جماعت پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔ ایسا خال خال ہی ہوتا ہے کہ صدر، اور مقننہ کے دونوں ایوان ایک ہی جماعت کی اکثریت والے ہوں۔ اس طرح سے وہاں کے سیاسی نظام میں توازن اور بھی یقینی ہوجاتا ہے۔

امریکہ کی اعلیٰ عدالت کے آئینی فیصلوں کی اہمیت کی وجہ سے وہاں سپریم کورٹ کے منصف کی نامزدگی نہایت اہم ہوتی ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے منصفوں کی مدت تا حیات ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ یہ منصف اپنے سیاسی اور آئینی نظریات بھی رکھتے ہیں۔ ان نظریات میں بھی قدامت پرستی یا آزاد خیالی شامل ہوتی ہے۔ امریکہ میں ریپلیکن پارٹی، قدامت پرست نظریات کی جماعت ہے، اور ڈیموکریٹک پارٹی ، آزاد خیال نظریات والی جماعت جانی جاتی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں یہ کوشش کرتی ہیں کہ اعلیٰ عدالت کے منصف ان کے نظریات کی طرف جھکاورکھتے ہوں۔

 سالہا سال سے اس عدالت میں قدامت پرست اور آزاد خیال، تقریباً برابر تعداد میں شامل تھے۔ ان کے اکثر فیصلے پانچ اور چار کی اکثریت سے ہوتے رہے ہیں۔ کئی فیصلوں میں کوئی ایک جج قدامت پرستی یا آزاد خیالی کے حق میں فیصلہ کرکے توازن کو قائم رکھنے میں مدد کرتا نظر کرتا نظر آتا رہا ہے۔

فی الوقت امریکہ میں یہ صورت ہے کہ وہاں صدر، اور مقننہ کے دونوں ایوان قدامت پرست جماعت کے نمائندہ ہیں۔ دونوں ایوانوں میں قدامت پرست جماعت کی اکثریت ہے۔اس صورتِحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے،سخت قدامت پرست امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کو اعلیٰ عدلیہ میں ایک ایسے جج کو متعین کرنے کا موقع ملا کہ وہاں عدالت پانچ قدامت پرست اور چار آزاد خیال ججوں میں واضح طور پر منقسم ہو گئی۔

حال ہی میں وہاں سپریم کورٹ کے ایک ایسے جج نے ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا ہے جو کبھی قدامت پرست اور کبھی آزاد خیال ججوں کا ساتھ دیتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں صدر کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اب ایک اور قدامت پرست جج کو نافذ کردیں اور عدالت میں چھ  جج واضح طور پر قدامت پرست ہو جائیں۔ اس ہفتہ انہوں نے ایسے ہی ایک جج کو نامزد کردیا۔ اس نامزدگی کی مقننہ کے اعلیٰ ایوان میں توثیق یقینی ہے۔ اس نامزدگی کے بعد شدید خطرہ ہے کہ امریکہ میں انسانی ، سماجی، اور معاشرتی حقوق کے بارے میں کئی سابقہ فیصلے تبدیل ہو جائیں گے۔ یا کچھ ایسے نئے فیصلے سامنے آئیں گے جو امریکہ میں حقوق اور معاشرتی انصاف کے نظام کو قدامت پرستانہ بنا دیں۔

ان فیصلوں میں خواتین کا اسقاطِ حمل کا حق،

تعلیمی اداروں میں سیاہ فاموں کے حقوق، روز مرہ کے معاملات میں مذہبی مداخلت، تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے حقوق ،  غیر ملکوں کے امریکہ میں داخلے کا حق، اور ایسے ہی کئی دیگر معاملات شامل ہیں۔دنیا بھر میں آزاد خیالی ، معاشرتی انصاف، اور انسانی حقوق کے عمل پرستوں کو اس صورتِ حال پرتشویش ہے۔ اب یہ امکان بڑھ رہا ہے کہ امریکی معاشرے کا جھکاو قدامت پرستی کی طرف ہو جائے۔ جس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی قدامت پرستی میں شاید اور اضافہ ہو۔

سالار ڈیکو ریٹرز کی شادی مینیجمنٹ: Salar Decorators’ Wedding Management

An audio recording of Wusatullah Khan’s article, Salar Decorators ki Shadi Management. This article was published at BBC Urdu at the following link.
سالار ڈیکوریٹرز کی شادی مینیجمنٹ

Listen to the audio at this link:

Audio recording by Munir Saami