فرشتے کیا ہیں؟ یا نہیں ہیں ؟۔۔ مرزا یٰسین بیگ صاحب کی ایک فیس بک بحث میں شمولیت کے لیئے

کینیڈا میں مقیم ممتاز صحافی، اور مزاح نگار محترم مرزا یٰسین بیگ صاحب نے فیس بک پر فرشتوں کے وجود، عدم وجود اور وجہہِ وجود پر ایک سوال اٹھا یا ہے۔ ایہلِ دانش کے نزدیک کوئی بھی سوال غیر ایم نہیں ہوتا۔ میں نے ان کی محفل میں شرکت کی دعوت پر مندرجہ ذیل تحریر پیش کی ہے۔

فرشتوں کے وجود یا عدم وجود کی مباحث مغرب میں کم از کم دو سو سال سے جاری ہیں۔
اس ساری بحث کو مغرب کی سو اہم کتابوں کے مجموعہ کی ادارتی جلد کے پہلے ہی باب میں، فرشتے، کے عنوان سے زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ ایک طویل اقتباس تناظر کے لیئے پیش ہے۔

احباب اس پر غور کر سکتے ہیں۔ میں اس اقتباس کے اختتام پر اس کے تیسرے پیرا گراف کا ترجمہ پیش کرکے بات کو مختصرا آگے بڑھانے کی کوشش کروں گا۔

“The word “angelic” usually has the connotation of perfect moral goodness, but that must not lead us to forget that demons are angelic in their nature although of a diabolical or evil will. Nor should the fact of Satan’s subservience to God cause us to forget that the Christian theology tries not to underestimate the power of the devil in his going and comings to the earth. Satan tried to tempt even Christ, and throughout the New Testament the destruction of diabolic influence over men occupies a prominent place. The intervention of the devil in man’s life provides, if not the theme, the background of Goethe’s Faust.

As the theory of demonic influence and diabolic possession is an integral part of the traditional doctrine of angels, so, in modern times demonology has been a major focus of attack upon theological teaching concerning spirits. Moralists have thought it possible to explain human depravity without recourse to the seductions of the devil, and psychiatrists have thought it possible for men to go mad or to behave as if bewitched without the help of evil spirits. The idea of Devil according to Freud, is a religious fiction….”The best way out in acquittal of God” for those who try “to reconcile the undeniable existence … of evil with his omnipotence and supreme goodness”.

The characteristic skepticism of our age has been directed against the belief in angels generally. It casts doubt by satire or denies by argument the existence of spirits both good and evil. Yet, all arguments considered, it may be wondered whether the existence of angels… or in philosophical terms the existence of pure intelligences — is or is not a genuine issue. Or are these two issues here, one philosophical and the other theological, one to be resolved, or left unresolved on the level of argument, the other to be answered dogmatically by the declarations of a religious faith?”

اثرِ حاضر عقائد کے خلاف شک یا تو ہجویانہ بیانات کے ذریعہ اٹھایا جاتا ہے، یا ان کے انکار کو مدلل مباحث میں اچھی یا بری ارواح کے وجود کے رد کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ لیکن تمام مباحث کے بعد یہ تعجب بھی کیا جا سکتا ہے کہ فرشتوں کا وجود ، یا فلسفیانہ اصطلاح میں مصفا فہم کو وجود، قابلِ توجہہ حقیقی مسائل ہیں کہ نہیں کی

ا ختصاصی تشکیک کو عام طور پر فرشتوں وغیرہ پر مبنی عقائد کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔ ان؟

کیا یہ مممکن ہے کہ یہ دو الگ مسائل ہیں۔ ایک فلسفیانہ اور دوسرا مذہبی۔ فلسفیانہ طور ہر اس مسئلہ کو بحث کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور اسے بغیر حل چھوڑا جا سکتا ہے۔ یا پھر مذہبی سطح پر اس کا جواب کٹر مذہبی عقیدہ پر مبنی ایمان پر چھوڑا جاسکتا ہے؟

ابراہیمی مذاہب میں یہ عقائد اسلام سے بھی ہزاروں سال پہلے سے موجود ہیں۔ اور ان کے خلاف تشکیک کا سللسہ ہر مذہب کے اہم ادیب اور شاعر نے جاری رکھا ہے۔ جبھی تو غالب نے کہا تھا کہ،

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

یا یہ کہ،

نہ تھا کچھ تو خدا تھا ، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

اگر ہم غور کریں تو شاید اندازہ ہو کہ ایک طرف تو مذہبی عقائد، جن میں خدا ، فرشتوں ، اور غیر مرئی اور غیر محسوس تخلیقات کے وجود کے مفروضات پر مبنی ہیں، دوسری جانب سارے کے سارے سائنسی علوم بھی ان نظریات اور مفروضات پر مبنی ہیں جن میں سے ہر ایک کو ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔

سائنس واالوں نے ان مفروضوں کے تلے اپنے لیئے راستہ یہ نکالا ہے کہ وہ ثبوت کے غلط ثابت ہونے پر عارضی طور پر معذرت کرکے نئے ثبوت ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں۔

میں بذاتِ خود اس غیر حتمی نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ساری کائنات مفروضات پر قائم ہے اور کیا ہے اور کیا نہیں ہے کی خبر کسی کو بھی مکمل طور پر معلوم نہیں ہے، جیسے غالب ہی نے کہا تھا کہ،

ہاں،کھایئو مت فریبِ ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے

مفروضوں پر مبنی کائنات کی ایک ادنیٰ سسی مثال یہ ہے کہ، ہم اور آپ نو سیاروں پر مبنی نظامِ شمسی پر سالوں سے عقیدہ کیئے بیٹھے تھے

۔ لیکن مشاہدوں کےجدید آلات نے ہمیں ان نو سیاروں کی صف سے پلوٹو کو نکالنے پر مجبور کیا، اور اب اس کی جگہ ابھی چند ہی روز پہلے ایک نویں سیارے کو ڈھونڈا گیا ہے جسے ابھی تک کوئی دوربین تلاش نہیں کر سکی ہے۔

اس کو دریافت کرنے والے ماہرینِ اجرام ِ فلکی نے اقرار کیا ہے کہ ان کی یہ دریافت صرف ریاضی کی مساواتوں میں موجود ہے ایک قوی امکان کے ساتھ لیکن اس نویں سیارے کے وجود کو مادی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے۔

سو چاہے معاملہ فرشتوں کا ہو، خدا کا ہو، یا کائنات اور اجرامِ فلکی کا، جب تک دنیا قائم ہے ، ہونے اور نہ ہونے کی مباحث جاری رہیں گی۔ صاحبانِ ایمان و عقائد اپنے راسخ ایمان کی بنیاد پر خدا اور غیر مرئی تخلیقات کے وجود کو مانتے رہیں گے۔ اور دوسری جانب حاملانِ اذہان و علوم اپنے مشاہدے، نظریہ ، اور مفروضہ ، اور عارضی ثبوتوں کی بنیاد پر تسخیرِ کائنات کے لیئےکوشاں رہیں گے۔

شاہد یہی وجہہ تھی کے عصرِحاضر کے نابغئہ روزگار نظریاتی سایئنسداں اسٹیفن ہاکنگ نے کہا ہے کہ، جس دن دنیا کے سارے سائنسداں، فلسفی، مذہبی علما، اور سیاستداں بیک زباں عام فہم زبان میں انسان کو سمجھا سکیں گے کہ کائنات کیسی بنی تھی، کب بنی تھی، اور کیوں بنی تھی، اس روز ہم شاید خدا کے ذہن کو تسخیر کر سکیں گے۔

میں منیر حقیر پر تقصیر بھی یہی سمجھ پایا ہوں کہ فرشتوں کے ہونے ، نہ ہونے، اور کیوں ہونے کا جواب بھی اسٹیفن ہاکنگ کے جواب میں پوشیدہ ہے ، جو شاید ایک لا متناہی مدت تک ثابت نہ ہو پائے گا۔

آخر میں ایک بار پھر غالب ہی سے استفادہ کرتے ہوئے ، اور محفل میں شریک کرنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اجازت طلب کرتا ہوں۔

ہستی ہے ، نہ کچھ عدم ہے، غالب۔۔ آخر تو کیا ہے اے نہیں ہے۔۔۔۔

Perceived Racism at Academy Awards

My latest Urdu Op Ed published at Urdu Times and Niazamana online. It discusses the perceived racism at Academy awards, and boycott by icons like Spike Lee, and Michael Moore. It can also be read at Niazamana online at the link below.

اکیڈیمی آسکرؔ فلم ایوارڈ اور نسل پرستی ؟

منیر سامیؔ

پاکستان کے ایک شاعر کا ایک مصرعہ آج بہت شدت سے یاد آیا، جو ذراسی تحریف کے ساتھ یوں ہے، ’سیاہ فاموں کے سر کے اوپر سفید ہاتھوں کی برتری ہے‘۔ اس کی وجہہ نسل پرستی کا وہ تنازعہ ہے جو اس سال کے اکیڈیمی فلم ایوارڈوں کی نامزدگی کے وقت دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس بار بھی گزشتہ سال کی طرح اکیڈیمی آسکرؔ انعاموں کی بیس اہم شقوں میں ایک بھی سیاہ فام اداکار یا اداکارہ نامزد نہیں کیے گئے ہیں۔

اس سال امریکہ کے عالمی شہرت یافتہ ہدایت کار ’اسپایئک لیؔ‘ (Spike Lee) نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس دفعہ ان انعامات کی تقریبات میں شرکت نہیں کریں گے۔ اسی طرح عالمی شہرت یافتہ دستاویزی فلم ساز اور ہدایت کار ’مایئکل مُور ‘ (Michael Moore) نے بھی ان تقریبات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ اور سوشل میڈیا پر اس ضمنی میں مباحث چل پڑیں ہیں۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اسپائک لی ؔ دنیا کے ان اہم فلمسازوں اور شمار میں کیا جاتا ہے جن کو ’فلم اکیڈیمی‘ نے خصوصی اعزازی ایوارڈ پیش کیے ہیں۔

اس بار کے اکیڈیمی انعامات کا تنازعہ یوں بھی اہم ہوگیا ہے کہ امریکہ کے بدنامِ زمانہ صدارتی امیدوار ’ڈونلڈ ٹرمپؔ‘ مسلمانوں ، ہسپانیوں، اور دیگر اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز نسل پرستانہ بیان دے کر امریکہ کے قدامت نسل پرستوں میں مقبولیت حاصل کرتے جارہے ہیں۔ یہ تمام قضیے یوں بھی اہم بن جاتے ہیں کہ گزشتہ سالوں میں کئی امریکی سیاہ فاموں کو بلا وجہ اور بلا اشتعال پولس کے ہاتھوں ہلاک ہونے ، اور اس پر پولس کی کئی سرزنش نہ ہونے پر امریکہ اور دنیا میں بے اطمینانی ، بے چینی عام ہے۔ اسی طرح امریکہ کی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر ’اوبامہ ‘ کے خلاف بھی مغلظات اور بہتان تراشی بہت عام ہے۔

اکیڈیمی انعاموں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان انعامات کے انعقاد سے اب تک، یعنی کم از کم پینٹھ سال کے عرصہ میں انعامات جیتنے والوں میں سفید فاموں کا تناسب اس طرح رہا ہے:

بہترین اداکار؛٩٩ فی صد، بہترین اداکارہ؛ ٩٩ فی صد، ۔۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ دس سال میں اداکاری کے انعام جیتنے والوں میں کوئی بھی لاطینی امریکی، ایشیائی، یا امریکہ کے اولین باشندوں میں سے شامل نہیں ہے۔

یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ شمالی امریکہ میں جب بھی اس قسم کے تعصبات کے سوال اٹھائے جاتے ہیں، فوراً ہی عمل پرستوں پر ’ریس کارڈ ‘ کے استعمال کی تہمت لگ جاتی ہے۔ عمل پرستوں پر اس بہتان طرازی کے باجود ہم پر لازم ہے کہ ہم ’اکیڈمی انعامات ‘ کے نظام اور طریقہ کو سمجھیں ۔ ’اکیڈیمی ‘ مخفف ہے ، ’’اکیڈیمی فَور مَوشَ پِکچرز آرٹس اَینڈ سایئنسز ‘ Academy for Motion Pictures Arts and Sciences نامی انجمن کا جس کے اراکین ایک خفیہ ووٹنگ کے ذریعہ ہر سال فلم کی دنیا کے بہترین لوگو ں کو ایوارڈوں کے لیئے نامزد کرتے ہیں، اور پھر آپس میں ایک اور رائے شماری کے ذریعہ بہترین افراد کو ان کے فن اور خدمات کے اعتراف کے لیئے منتخب کرتے ہیں۔

مبصرین کی رائے میں بنیادی خرابی اس انجمن میں اراکین کے تناسب کی ہے۔ امریکہ میں فلمی صنعت سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اس کی رکنیت کا مستحق ہے۔ تا دمِ تحریر اس انجمن کے 94 فی صد اراکین سفید فام اور 76 فی صد مرد ہیں۔ اس صورتِ حال میں نہ چاہنے کے باجود معاملہ ’ اندھا بانٹے ریوڑی، ڈھونڈھ ڈھونڈ اپنوں کو دے ‘ والا بن جاتا ہے۔

اس سال یعنی 2016 ِکے اکیڈیمی انعامات سے، جنہیں عام طور پر آسکر ؔ کہا جاتاہے، بعض اہم شخصیات کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد ، اکیڈیمی کی صدر ’چیرِل بُون آئیزاکس‘ Cheryl Boone Issacs نے ایک بیان میں اس انجمن کے اراکین میں نسلی تنوع کے فقدان کا اعتراف کیا ہے ، اور کہا ہے کہ وہ گزشتہ چار سال سے اس مسئلہ کو حل کرنے اور تنوع میں اضافہ کی کوششیں کر رہی ہیں، لیکن یہ عمل بہت سست رفتار ہے، اور وہ اس صورتِ حال سے بہت دل شکستہ اور مایوس ہیں، لیکن وہ اس ضمن میں اپنی کوشش جاری رکھیں گی۔

سنہ 1950سے اب تک جن غیر سفید لوگوں کو بہترین اداکارکے لیئے اکیڈیمی ایوارڈ دیئے گئے ہیں ان کے نام یہ ہیں، جوزے فَیرر، سِڈنی پوئےٹیر، بین کنگزلی(گاندھی کا کردار)، ایف مَرے ابراہام، ڈینزِل واشنگٹن، جیمی فوَکس، اور آخری بار سنہ 2006 ِ میں فَوریسٹ وہٹیکر۔ اسی طرح واحد سیاہ فام اداکارہ ہَیلی بَیری کو یہ انعام سنہ 2002میں دیا گیا۔ اس سے آپ اس معاملہ کی گمبھیرتا کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔اسی طرح خواتین کو بھی شکایت ہے کہ فلم سازی کی مختلف شاخوں میں بہترین اداکارہ، اور بہترین معاون اداکارہ کی شاخ کے علاوہ دیگر شقوں میں خواتین کا حصہ بہت ہی غیر متناسب ہے۔

فلمی صنعت میں نسلی تعصب کے خلاف عمل پرستوں پر جو لوگ ’ریس کارڈ ‘ استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہیں، انہیں معروضی طور پر غور کرنا چاہیئے کہ ایسا کیوں ہے کہ، ’کنکَشن Concussion نامی فلم کے مشہورِ عالم سیاہ فام اداکار ، وِل اسمِتھؔ Will Smith کو اکیڈیمی نے کیوں نظر ادا کیا جب کہ اسی فلم کے لیئے اسی سال امریکہ اور دنیا کے اہم ترین انعاموں کے لیئے اسے نامزد بھی کیا گیا ہے، اور اس نے ان میں سے اب تک کئی انعام جیت بھی لیئے ہیں۔ اسی طرح بہترین معاون اداکار کی شق میں ممتاز سیاہ فام اداکار ’ ادریس ؔالباؔ‘ کی غیر موجودگی پر شائقین میں غمزدگی ہے۔ اسے بھی اسی سال فلمی صنعت کے دیگر اہم انعامات کی نامزدگی ملی، لیکن اسے ’آسکر ‘ کے لیئے نظر انداز کر دیا گیا۔

دنیا کے باضمیر انسانوں ، بالخصوص شمالی امریکہ اور مغرب میں بسنے والے جنوبی ایشیایئوں اور پاکستانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ وہ بھی ان معاشروں میں اور خود اپنے معاشروں میں نسل پرستی کے عفریت کے نشانوں میں شامل ہیں،ا ور وہ وقتاً فوقتاً انہیں شکار کرتا ہے۔ جس کی حالیہ مثال امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ننگی نسل پرستی ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ امریکہ میں سیاہ فاموں نے اپنے خلاف سالہا سال کے نسل پرستانہ رویوں اور مظالم کے بعد ایک طویل جدو جہد کے ذریعہ کچھ حقوق حاصل کیے ہیں۔ یہ ان ہی کی جدو جہد کا پھل ہے جس کا فائدہ اب امریکہ میں بسنے والے دیگر غیر سفید فام بھی اٹھاتے ہیں۔ امریکہ اور دنیا کے ہر انسان اور خصوصاً ہر غیر سفید فام پر لازم ہے، کہ وہ سیاہ فاموں اور باضمیر سفید فاموں کے ساتھ متحد ہو کر ، نسل پرستی کے خاتمہ اور مساوی حقوق کی جدو جہد میں شامل ہو۔

صرف اسی عمل پرستی کے تحت ایسا معاشرہ قائم ہو سکے گا جہاں ہرشخص کو تعلیم و تربیت، اور فن اور ثقافت میں ترقی کے یکساں مواقع مل پایئں گے۔عالمی دستاویزی فلم ساز اور ہدایت کار، ’مائکل مور ‘ کے بیان اور انعاموں کی تقریب کے بائکاٹ کے اعلان پر کیا ہم توقع کر سکتے ہیں، کہ اہم پاکستانی نژاد غیر سفید فام دستاویزی فلم ساز اور ہدایت کا، اور اکیڈیمی کی حامل، اور اس سال دوبار نامزد، محترمہ ’شرمینؔ عبید چنوئے ‘ بھی ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ کر مائکل مور کا ساتھ دیں گی؟

You can also read online at Niazamana.

Academy Awards Racism Controversy

جس دھج سے کوئی مرقد میں گیا۔ ….Remembering David Bowie

جس دھج سے کوئی مرقد میں گیا

Remembering David Bowie

Bowie

صوفیائے کرام کے اہم افکار اور اقوال میں یہ فکر بھی شامل ہے کہ ایک کامل انسان وہ ہوتا ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کے لیئے تیار ہو اور جب موت آئے تو اس کا استقبال خوشی خوشی کرے اورسکون سے اس دارِ فانی کو چھوڑ جائے۔ نیک لوگوں اور قلندر وں کی پہچان بتاتے ہوئے اقبالؔ نے کہا تھا کہ ’اگر چہ سر نہ تراشد قلندری داند‘۔ اور غالبؔ نے بھی تو کہا تھا کہ، ’تجھے ہم ولی سجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا‘۔ اس کے ساتھ ہی مجھے یہ اصول بھی یاد آیا کہ کامل انسانوں، قلندروں ، اور صاحبانِ وَلایت کا کوئی مذہب، رنگ، نسل ، اور ذات پات نہیں ہوتے، وہ صرف اور صرف انسان ہوتے ہیں جن کے دلوں میں انسانی درد اور انسانوں سے محبت کا جذبہ موجزن ہوتا ہے۔

یہ سب افکار و اشعار مجھے عصرِ حاضر کے عالمِ موسیقی پر جاوداں نقش چھوڑنے والے فنکار’ ڈیوڈ بووی‘ ؔ کی موت پر یاد آئے، جوجنوری 2016 ء کی دس تاریخ کو بہت ہی سکون کے ساتھ اپنے خاندان سے رخصت ہوتا ہوا موت کا ہاتھ پکڑ چلا گیا۔ اس کی زندگی میں اُس کی ایک سو چالیس ملین سے زیادہ البمیں فروخت ہوئی تھیں۔

موت سے دو دن پہلے اس کی آخری البم ’بلیک اسٹار‘ کے عنوان سے جاری ہوئی تھی۔ اس البم میں اس کے ایک گانے کا عنوان ’لِزارَس ‘ہے جس کے بول اس طرح سے ہیں۔۔۔

“Look up here, I’m in heaven,

I’ve got scars that can’t be seen,

I’ve got drama, can’t be stolen,

Everybody knows me now.”

ان بولوں کا سادہ سا ترجمہ یو ں کیا جاسکتا ہے،’ ’ذر ا اوپر دیکھو، میں اب جنت میں ہوں۔۔میں اپنے ساتھ وہ زخم لایا ہوں جو دکھائی نہیں دیتے۔۔میرے پاس وہ تمثیل ہے جوکوئی چرا نہیں سکتا ۔۔۔اب مجھے ہر شخص جانتا ہے‘‘۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ’لِزارَس ‘کا ادبی اور تخلیی کردار عالمِ ادب میں اس کردار پر مبنی ہے جسے حضرت عیسیٰ نے اُس کی موت کے چار دن بعد زندہ کر دیا تھا۔ ادبی استعاروں میں ’لِزارَس‘ موت کے بعد دوبارہ زندگی پانے کا استعارہ ہے۔ 

ڈیوڈبوویؔ ،کی ساری موسیقی اور خصوصاً اس کی اہم ترین موسیقی کا تعلق بہ ہر طور کہکشاؤں اور انسانوں سے ہے۔ اُس کی معروف ترین البم کا عنوان، جسے بلا شبہ مغربی دنیائے موسیقی کی اہم ترین البموں میں شمار کیا جاتا ہے، مندرجہ ذیل ہے:

The Rise and Fall of Ziggy Stardust and the Spiders from Mars

جس کا کردار ’زِگّی اسٹار ڈسٹ‘ یا ’غبارِانجم ‘ کہکشاؤں سے آیا ہوا ،ایک نوجوان ہے۔ یہ دراصل ڈیوڈبوویؔ ۔ کا ہم زاد ہے ، جودنیا اور انسانیت کے آخری پانچ سالوں میں انسانوں کے لیئے امید کا پیغام لے کر آیا ہے۔ وہ نوجوانوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ زمین اور دنیا قدرتی وسائل کے خاتمہ کی وجہہ سے فنا ہونے کو ہیں، لیکن اس کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی نوجوانوں کو خواہش ہے۔ دنیا کے بزرگوں نے ہر حقیقت کو فراموش کردیا ہے ، اور نوجوان اب کس مپرسی کے عالم میں جہاں سے جو ملے لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 غبارِ انجم‘ کے پاس ’روک اینڈ رول ‘ موسیقی ہے لیکن نوجوان اسے پسند نہیں کرتے۔ اس وقت دنیا کی حالت یہ ہو چکی تھی کہ موسیقی سنانے کے لیئے بجلی بھی نہیں تھی۔’غبارِ انجم ‘ کا مشیر اسے کہتا ہے کہ خبریں جمع کرو اور گانے بنالو کیونکہ اب خبریں بھی باقی نہیں ہیں۔ سو وہ خبروں کا گانا بناتا ہے ، لیکن اب ہر خبر وحشت ناک ہے۔ پھر اسے ایک خواب میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ’اِسٹار مَین‘، کا ایک کردار بنا لے۔ اس گانے کے سارے کردار ’انسانی ستارے ‘ہیں جو لامحدود ہیں۔ یہ پہلی امید افزا خبر ہے جو نوجوانوں نے سنی ہے، سو وہ ’غبارِ انجم ‘ کے دلدادہ اور مرید ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ ’انسانی ستارے ‘ ہیں جو دنیا کے لیئے باعثِ امید ہیں۔اب سب لوگ کہکشاں در کہکشاں سفر کرنے لگتے ہیں اور کسی کو کوئی فکر نہیں رہتی۔ اب ’غبارِ انجم ’ خود کو مستقبل کے ’انسانی ستاروں ‘ کا پیغمبر سمجھنے لگتا ہے اور خود کو روحانی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ اُس کے پرستاراس کو زندہ رکھتے ہیں اور اس کے قصیدے پڑھتے ہیں۔

جب مستقبل کے ’انسانی ستارے‘ زمین پر پہنچتے ہیں تو وہ ’ غبارِ انجم ‘ کے بدن سے ریشے نوچتے ہیں کیونکہ وہ خود غیر مادی اور غیر مرئی ہیں اور زمین پر مادی حالت کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پھر ایک گانے کے دوران جس کا عنوان ’روک اینڈ رول کی خودکشی ہے‘، انسانی ستارے ’غبارِ انجم ‘ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں اور جیسی ہی وہ مرتا ہے، ’انسانی ستارے‘ سب کو نظر آنے لگتے ہیں۔ 

  ڈیوڈ بوویؔ نے 1976 ایک فلم ’دی مَین ہُوفَیل اَون دی اَرتھ‘ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس فلم میں اس کا کردار ایسے شخص کا ہے جو کسی دوسری سیارے سے زمین پر پہنچا ہے تاکہ یہاں سے اپنے خشک سالی زدہ سیارے کے لیئے پانی حاصل کرکے کسی طرح وہاں لے جائے۔ اسے اس کوشش میں انسانی مدد بھی ملتی ہے ، لیکن پھر وہ گرفتار ہو جاتا ہے ۔ کئی سال کے بعد اسے قید سے فرار ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ 
گزشتہ نومبر میں اس فلم کے پس منظر میں نیو یورک میں ’لَزارَس‘، کے عنوان سے ایک تھیٹر شروع ہوا ہے۔ جو ڈیوڈ بوویؔ ، کی موسیقی پر مبنی۔ اس کے ٹکٹ ریکارڈ طور پر فروخت ہوئے ہیں۔ اس میں اُس کے پرانے اور نئے گانوں اور موسیقی کا امتزاج شامل ہے۔ یہ تھیٹر بیس جنوری تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ 

موسیقی اور فن کی دنیا میں ڈیوڈبوویؔ ، کا اثر بہت گہرا اور کائناتی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس کے انتقال پر پاکستانی نژاد آرٹسٹ ‘مونا سعید کمال ‘ نے ، جن کے فن پاروں کی ایک نمائش کراچی میں جاری ہے ، اپنے فیس بک پیغام میں لکھا کہ، ’’ڈیوڈ بوویؔ ، تم نے مجھ پر بہت طرح سے اثر چھوڑا ہے : لڑکپن میں تمہاری موسیقی پر رقص سے، محبت کی جدید تفہیمات تک، اور پھر اپنے سنِ بلوغت میں تمہارے اولین کام سے خود اپنے فن کے لیئے تخلیقی تحریک حاصل کرنے تک کہ جب میں اپنی شناخت کی تلاش میں تھی، اور آج بھی تمہاری موسیقی میر ے لڑکپن کی یادیں تازہ کرتی ہے ۔ میں خوش ہو ں کہ مجھے اسیّ کی دہائی میں پروان چڑھنے کا موقع ملا۔

دوسری طرف عصرِ حاضر کی مشہور ترین گلوکار اور فنکارہ ’مَیڈَونا‘ نے کہا کہ’’میری حالت غیر ہے۔ ڈیوڈ بوویؔ نے میر ے فن کی سمت ہمیشہ کے لیئے بدل کر رکھ دی تھی۔ ڈیوڈبووی ؔ میں تمہاری شکر گزار اور مقروض ہوں۔‘‘ یہ جذبات صرف میڈوناؔ اور موناؔ کمال تک محدود نہیں۔ عصرِ حاضر میں موسیقی، ثقافت، فلمی دنیا، اور فن کاری سے متعلق ہر بڑے شخص نے ڈیوڈ بووی کے انتقال پر اپنے درد اور جذبات کا اظہار کیا ہے۔برطانیہ میں موسیقی کے ایک اہم جشن کے بانی’مائکل اِیوِس‘ نے کہا کہ دنیائے موسیقی کے عظیم ترین نام تین ہیں، فرینک سناترا،ایلووِ س پریسلی، اور ڈیوڈ بووی۔ اس کے علاوہ کوئی ان کی ہم سری کے قریب بھی نہیں ہے۔

کینیڈاکی اہم آرٹ گیلری، ’اے۔جی۔اَو‘، میں،  ۲۰۱۳ء میں ، ڈیوڈ بوویؔ کی زندگی اور فن پر ایک اہم نمائش لگی تھی۔ یہ میری اور میرے اہلِ خانہ کی خوش نصیبی تھی کے ہمیں اس میں اس اہم فنکارا ور انسان کی زندگی کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملا۔ کل ٹورونٹو میں پہلے سے طے شدہ ایک پروگرام کے تحت ڈیوڈ بووی ؔ کا ایک کنسرٹ منعقد ہوگا۔ اس میں کینیڈا کے وہ فنکار شرکت کریں گے جو مختلف اوقات میں اس کے ساتھ پروگرام کرتے رہیں تھے۔ ایک فرضِ کفایہ کے طور پر میری بیوی اور بیٹا اس میں حاضری دیں گے۔

’ اِسٹار مَین‘، اَسپیس آڈِٹی، اور مَین ہُو فَیل اَون اَرتھ‘، جیسی لافانی موسیقی کے خالق کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے گزشتہ سال خلائی جہاز سے کینیڈین خلاباز ’کِرِس ہَیڈفِیلڈ‘ نے ’اِسپیس آڈِٹی‘ پیش کی تھی۔ جس پر ڈیوڈ بوویؔ نے اس کی بے پناہ تعریف کی تھی۔ اس نغمہ کے ایک بول کے الفاظ ہیں:

This is Major Tom to Ground Control

I’m stepping through the door

And I’m floating in the most peculiar way

And the stars look very different today

میجر ٹومؔ گراؤنڈ کنٹرول سے مخاطب ہے۔۔میں اب دروازے سے باہر جا رہا ہوں۔۔اور خلا میں عجیب طرح سے محوِ پرواز ہوں۔۔ آج سب ستارے مختلف طرح سے دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔‘‘
ڈیوڈ بوویؔ کو یاد کرتے ہوئے خلابا ز ’ہیڈفیلڈ‘ نے کہا ’’کہ ڈیوڈ بوویؔ کی موسیقی میں کہکشاؤں اور انسانوں کا ذکر شاید یوں بھی تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ کہکشاؤں کی بے پناہ وسعت کے سامنے کسی خود سر انسان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔”

خود اپنے فن کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈیوڈ بوویؔ نے کہا تھا کہ، ’’میں ہمیشہ صرف ایک ہی موضوع پیش کرتا رہا ہوں ، چاہے میر ے کرداروں کا لبادہ کچھ بھی ہو، اور وہ تنہائی، ترک و تیاگ، خوف، اور بے چینی اور بے اطمینانی کے موضوع ہیں۔ اور یہی ہر انسان کی زندگی کے اہم معاملات ہیں۔”

ڈیوڈبوویؔ ، اپنی تمام زندگی درماندہ ، افتادہ، اور معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے طبقات کے گیت لکھتا رہا ۔ اُس کی موت پر دنیا بھر میں انسان، فنکار، پرستار، سیاستدان، سب کے سب اُس کی زندگی کا جشن منارہے ہیں، اور کہکشاؤں سے اترے ہوئے انسان کو اس ہی کے ترانوں کے ساتھ رخصت کر رہے ہیں۔ شاید ایسی ہی رخصتی کے لیئے جونؔ ایلیا نے لکھا تھا کہ، ’’جیسا نکلا اپنا جنازہ ایسے جنازے کم نکلے۔”

ہم تُم کو روتے ہی نہ رہتے اے مرنے والو : In memory of Aslam Azhar

I share my Op Ed on late Aslam Azhar published at Urdu Times in its various North American and European cities.

It is in Urdu and I have penned it as a duty of a writer to share about a great Pakistani who has undoubtedly indebted the nation with his contributions as well as sacrifices in upholding values, culture, justice, and rights, as well as enriching Pakistan through his work in establishing Television there.

Those who may not read Urdu may read some articles on him by googling.

—————————————————————————

ہم تُم کو روتے ہی نہ رہتے اے مرنے والو

پر دیس میں رہنے والوں تک کبھی ایک ایسی خبر پہنچتی ہے کہ وہ اچانک سکتہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں، یا اُن کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو پھوٹ پڑتے ہیں۔ اس لمحہ ایک ایسا احساسِ بے بسی ہوتا ہے کہ انسان بے چارگی کے عالم میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے ، کس ہم درد کس ہم نَفَس کو تلاش کرے اور ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈال کر آہ و زاریاں کرے۔ گزشتہ ہفتہ ہم پر ایسا ہی عالم گزرا جب ہم تک پاکستان کی معروف پبلشر، اور انسانی حقوق کی تحریک کی اہم شخصیت، محترمہ حوری نورانیؔ کا فیس بُکدوسرے دن پھر جمع ہوجات کا ایک پیغام پہنچا جس میں پاکستان میں ٹیلی ویژن قائم کرنے والے اور ابلاغِ عامہ کے نظام میں انقلاب برپا کرنے والے ’اسلم اظہرؔ ‘ کے انتقال کی خبر تھی۔ ہم اسلم اظہر سے کبھی ملے بھی نہیں تھے نہ ہی اُن سے ہمارا کوئی ذاتی تعلق تھا۔ ہاں ہم اُن کا نام اپنے لڑکپن سے جانتے تھے، جب پاکستان میں ٹیلی ویژن کی تجرباتی نشریات شروع ہوئی تھیں۔ ملک بھر میں مختلف عوامی مقامات پر کھمبوں پر بلیک اینڈ وہائٹ ٹیلی ویژن نسب کیئے جاتے تھے، اور شام کو ایک معینہ مدت کے لیئے ان پر پروگرا م نشر ہوتے تھے۔ ان کے ارد گرد عوام جمع ہو جاتے تھے، اور دو تین گھنٹے تک سحر کے عالم میں ٹکٹکی باندھے ٹیلی ویژن دیکھتے اور ے تھے۔

اس ہی دوران یہ معلوم ہونا شروع ہوا کہ ان تجرباتی نشریات کے ذمہ دار اسلم اظہر نامی ایک  صاحب ہیں جو پاکستان کے معروف سرکاری افسر ’اللہ دتا اظہر (اے، ڈی، اظہر) کے صاحبزادے ہیں۔ جس زمانہ میں پاکستان میں ٹیلی ویژن کاتجربہ کیا جارہا تھا اس وقت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں ایسی کوئی بڑی کوشش شروع نہیں ہوئی تھی۔ ان تجربات کے فوراً بعد پاکستان میں ٹیلی ویژن نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی، اور ہمارے سامنے پاکستان میں ادب ، ثقافت، سماجی معاملات، علوم و فنون،صحافت اور صنعت و حرفت کے معروف نام آئے جو اب زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ اُسی زمانہ سے پاکستانی ٹیلی ویژن ڈراموں کا ایک بلند معیار قائم ہوا جو سارے برِ صغیر کے لیئے ایک مثال بن گیا۔ یہاں تک کہ یہ ہندوستان میں بھی ذوق و شوق سے دیکھے جانے لگے۔ اب ہم جو پاکستان میں بے تحاشا کیبل ٹیلی ویژن اور نئے نئے چینلوں کے عادی ہیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے پیچھے ایک ایسے شخص کا کردار تھا جو ادب و ثقافت کی خاطر ایک بڑی مراعات یافتہ ملازمت چھوڑ کر آیا تھا۔ Continue reading